بٹوارے کے زخم سے ٹپکتا لہو! ـ

Share this

تحریر: یاسر خالق

پچھتر برس قبل جب برصغیر پر برطانوی سامراج کی نوآبادیاتی استحصالی گرفت کمزور ترین سطح پر آ پہنچی تب “تقسیم کرو اور حکمرانی کرو” کا کلیہ “تقسیم کرو اور سامراجیت و سرمایہ داری کو بچاؤ” تک پہنچ کر خونی تقسیم کا روپ دھار گیا۔ برطانوی سامراج نے اپنی ناک تلے برصغیر کے نومولود، کمزور اور نحیف محنت کش طبقے کی مضبوط طبقاتی طاقت اور جڑت کو پنپتے دیکھ لیا تھا۔ ایک ایسی عظیم طاقت جس کا حسن یہ تھا کہ مختلف مذاہب اور قومیتوں سے تعلق رکھنے والے محنت کش عوام بطور ایک طبقہ اپنی سیاسی طاقت کا بھرپور اظہار کرتے ہوئے سامراج اور اسکے کاسہ لیس مقامی حکمرانوں کے خلاف “آزادی” کی جدوجہد میں مصروف تھی۔ اسکی ایک مثال 1946 میں بحریہ کے ملازمین (جہازیوں) کی بغاوت اور ملک گیر ہڑتال تھی جس نے ایسٹ انڈیا کمپنی اور برطانوی سامراج کی استحصالی جڑوں کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ یہ تحریک مذہب و قوم سے بالا تر کُلی طور پر محنت کش طبقے کی ایک طبقاتی تحریک تھی، جس میں ایک طرف تمام مذاہب اور قومیتوں سے تعلق رکھنے والے محنت کش شریک تھے تو دوسری طرف اس قیادت میں بھی ہندو، مسلمان، سکھ اور سبھی شامل تھے۔ اسی مشترکہ و متحدہ جدوجہد کا راستہ روکنے، اسے توڑنے اور کمزور کرنے کی خاطر مذہب اور قومیت کا سیاسی استعمال کیا گیا تاکہ زر کی بنیاد پر کھڑے اس سامراجی نظام یعنی سرمایہ داری کو برقرار رکھا جا سکے۔

اسکی ایک اہم وجہ یہ بھی تھی کہ روس میں سوشلسٹ انقلاب کے بعد دنیا بھر میں سامراج اور سرمایہ داری کے خلاف پے در پے بغاوتیں اور تحریکیں جنم لے رہی تھیں۔ جہاں ایک طرف سامراج ان تحریکوں اور بغاوتوں کو مختلف طریقوں سے توڑنے اور شکست دینے کےلئے محنت کش طبقے کی تقسیم کی بنیادیں مزید وسیع کرنے کے ہتھکنڈے استعمال کر رہا تھا تو دوسری طرف بایاں بازو بھی عالمی طور پر سٹالن کی قیادت میں قوم پرستانہ اور مرحلہ واریت کے نظریاتی دیوالیہ پن کا شکار ہو کر تحریکوں کی کمزوری اور ناکامی کا باعث بن رہا تھا۔ انہی وجوہات کی بنا پر برصغیر میں برطانوی سامراج کا انقسامی کلیہ مکمل طور پر کارآمد رہا اور انکی منشاء کے عین مطابق نتائج برآمد ہوئے۔ تیس لاکھ سے زائد انسانوں کے مذہب کے نام پر قتلِ عام کے بعد اور لاکھوں انسانوں کی جبری ہجرت کے نتیجے میں دو نئی ریاستیں / مملکتیں معرضِ وجود میں لائی گئیں۔

تقسیم کے وقت ایک اخبار کا صفحہ اول

اتنے خون خرابے اور جبری اکھاڑ پچھاڑ کے 75 برس بعد ان دونوں “آزاد” مملکتوں کی آبادی کی وسیع اکثریت آج بھی غلامانہ زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔ کیونکہ آج بھی دونوں اطراف کی اکثریت دو وقت کی خوراک، جدید سائنسی علاج و تعلیم، رہائش، سفری اور دیگر بنیادی سہولیات کے حصول کی خاطر سرمائے کی غلام ہے۔ آج بھی صنعتی مزدور، کسان اور عام محنت کش کا استحصال پہلے سے بھی زیادہ شدت سے جاری ہے۔ دراصل سرمایہ داری و جاگیرداری نظام کے تحت آزادی کا ایک ہی مطلب ہے کہ جس کی جیب میں جتنا سرمایہ ہے وہ اتنا ہی آزاد ہے۔ سرمایہ داری میں سرمائے سے محرومی ہی بنیادی طور پر حقیقی غلامی کہلاتی ہے جو انسان کو اپنی محنت بیچنے پر مجبور کرتی ہے۔ نومولود ریاستوں میں جاگیرداری اور سرمایہ داری کے تحت عوام کی معاشی غلامی تو خیر کیا ختم ہوتی الٹا دونوں اطراف مذہبی، سیاسی، صحافتی اور سماجی آزادی کے حصول کا خواب بھی محض ایک خواب تک ہی محدود رہا۔

اپنی نام نہاد آزادی کے پچھتر سال بیت جانے کے باوجود بھی دونوں ریاستیں سرمایہ دارانہ قومی جمہوری سماج کی تشکیل کے تقاضوں تک کو پورا کرنے سے قاصر رہی ہیں۔ مذہب کو عملاً ریاست سے علیحدہ کرنا تو درکنار، مذہبی شدت پسندی میں مزید اضافہ کیا گیا، جدید قومی ریاست کی تشکیل نہ ہو سکی، قومیتوں کے مسائل کو حل نہ کیا جا سکا، جدید پالیمانی نظام کا پائیدار قیام عمل میں نہ لایا جا سکا، زمینوں کی تقسیم کا مسئلہ یعنی زرعی اصلاحات کے فرائض کی تکمیل نہ جا سکی، زراعت کو جدید خطوط پر استوار نہ کیا جا سکا، صنعت و ٹیکنالوجی بھی عالمی منڈی میں مقابلے کے لئے درکار معیار کی صلاحیت کی سطح کی ترقی حاصل نہ کر سکی، جدید انفراسٹکچر کی تعمیر نہ ہو سکی اور سب سے بڑھ کر برطانوی سامراج کے نو آبادیاتی عہد کے ضرورت سے بڑھے ہوئے ریاستی ڈھانچے اور اس کے کردار کو سرمایہ دارانہ جمہوری ڈھانچے کے تابع نہ کیا جا سکا، غرضیکہ کوئی ایک بنیادی سماجی مسئلہ بھی کسی پائیدار اور مکمل حل کی طرف نہ جا سکا۔ بلکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ بھوک، غربت، جہالت، لاعلاجی اور بیروزگاری میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔ غریب عوام معاشی جبر کے ہاتھوں مجبور ہو کر خودسوزیاں کررہی ہے. عوام کی اکثریت علاج جیسی بنیادی ضرورت سے محروم ہوتی جا رہی ہے۔ تعلیم اتنی مہنگی کر دی گئی ہے کہ غریب کے بچے کے لئے سکول کے دروازے مکمل بند ہو چکے ہیں۔ فٹ پاتوں پر سو کر زندگی گزرانے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ بیروزگاروں کی فوج میں دن رات اضافہ ہو رہا ہے۔ مذہبی شدت پسندی، نسلی امتیازات اور تعصبات، منافرت اور فرقہ واریت اپنی انتہاؤں کو چھو رہے ہیں۔ مظلوم قومیتوں کا استحصال پہلے سے کئی گناہ زیادہ بڑھ چکا ہے۔ جمہوری آزادیاں جو پہلے ہی محدود تھیں، تیزی سے خاتمے کی جانب بڑھ رہی ہی، جمہوریتوں کے نام پر آمرانہ تسلط قائم کیا جارہا ہے، سیاست و صحافت مکمل طور پر سرمائے کی لونڈیاں بن چکی ہیں۔ دونوں اطراف زبان بندی کا دور دورا ہے۔ عدم مساوات اور طبقاتی خلیج تیز رفتاری سے بڑھ رہی ہے۔منہگائی کا جن اب دیو بنتا جا رہا ہے۔ خط غربت کے نیچے انسانوں کا پورا سمندر موجود ہے۔

لیکن ان تمام سماجی بربادیوں کے باوجود بھی دونوں اطراف کی سرمایہ دار و جاگیردار اشرافیہ اور ریاستی سول و عسکری افسر شاہی یقینی طور پر مکمل آزاد ہے کیونکہ وہ خوراک، علاج، تعلیم، رہائش، ٹرانسپورٹ سمیت تمام بنیادی انسانی ضروریات کے عیاشی کی حد سے بھی زائد حصول میں آزاد ہے۔ کیونکہ ان کا دونوں اطراف کی دولت اور وسائل پر مکمل ملکیتی کنٹرول ہے جس کی بنیاد پر وہ محنت کش عوام کا مزید استحصال کرتے ہوئے مزید دولت اور ملکیت بنا رہے ہیں کیونکہ سرمایہ داری میں چند فیصد لوگوں کی آزادی کی بنیاد ہی درحقیقت اکثریت کی معاشی غلامی اور استحصال میں پنہاں ہوتی ہے اس لئے طبقات پر قائم نظامِ سرمایہ داری کو بدلے بغیر عوام کی اکثریت کی آزادی کے دعوے دیوانے کے خواب سے زیادہ کچھ نہیں۔

المیہ یہ ہے کہ دونوں اطراف کی سول و عسکری حکمران اشرافیہ اپنی اپنی عوام کے سلگتے ہوئے بنیادی مسائل کو حل کرنے کی بجائے مذہبی بٹوارے کے نتیجے میں لگنے والے زخم کو ہر روز نفرتوں کے چاقو سے کریدتے ہیں تاکہ اس زخم سے لہو ٹپکتا رہے اور انکی خونی، جنونی اور استحصالی دکانداری چلتی رہے۔ بٹوارے کے 75 سال بعد بھی مظلوم و محکوم قومیتوں کے حق خودارادیت کو تسلیم کرنے کی بجائے ان پر شب خون مارنے کے مشترکہ منصوبوں کو تکمیل کی طرف بڑھایا جا رہا ہے۔ اسی پیرائے میں ریاست جموں کشمیر کے عوام کے حق خودارادیت کو بزورِ طاقت اور بذریعہ منافقت، دھوکہ دہی اور چالاکی سلب کرنے کا منصوبہ تیزی سے آگے بڑھایا جا رہا ہے۔

ماہ اگست برصغیر میں خونی تقسیم کی پوری تاریخ اپنے اندر سموئے ہوئے ہے اور اس غیر فطری اور غیر انسانی تقسیم کی حتمی تکمیل کی واردات بھی ماہ اگست میں ہی ڈالنے کی کوششیں کی گئیں۔ 05 اگست 2019 کو بھارتی ریاست نے اپنے ہی آئین کا گلہ گھونٹتے ہوئے اپنے زیرِ کنٹرول جموں کشمیر کو حاصل نیم آزادانہ و نیم خودمختارانہ حیثیت اور تشخص پر قاتلانہ حملہ کرتے ہوئے، اپنے ہی آئین کے آرٹیکل 370 اور 35-A کو منسوخ کر دیا۔ اس جابرانہ عمل کے نتیجے میں بھارتی زیر انتظام کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے بھارتی ریاست میں ضم کر دیا گیا اور “قانون باشندہ ریاست” کے حق کا خاتمہ کرتے ہوئے غیر ریاستی باشندوں کو ریاست جموں وکشمیر کی زمینیں خریدنے کی کھلی چھوٹ دے دی گئی تاکہ جموں وکشمیر کی ڈیموگرافی کو تبدیل کیا جا سکے۔

اس ظالمانہ عمل کے بعد ایک طرف ہزاروں غیر ریاستی باشندوں کو کشمیری ڈومیسائل جاری کئے گئے اور کئے جا رہے ہیں تاکہ ممکنہ انتخابی نتائج کو تبدیل کیا جاسکے اور بھارت کے غیرقانونی قبضے کو جموں و کشمیر کی اسمبلی سے قانونی جواز فراہم کروایا جاسکے اور دوسری طرف ریاست کے وسائل پر قبضہ کرتے ہوئے انکی لوٹ مار کا بازار گرم کیا جاسکے۔ اس عمل کی تکمیل کتنی آسان اور کتنی جلد ہو پاتی ہے یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کیونکہ وہاں مزاحمت رکی ضرور ہے ختم ہرگز نہیں ہوئی۔

سال 2019ء میں جب ایک طرف بھارتی ریاست کشمیریوں کے حق خودارادیت، تشخص اور وحدت پر شب خون مار رہی تھی تو دوسری طرف ریاست پاکستان کی معنی خیزخاموشی تقسیم ریاست جموں و کشمیر کی سازش کو عیاں کر رہی تھی۔ اس وقت باشعور، ترقی پسند اور مزاحمتی سیاسی کارکنوں کی طرف سے اس “مشترکہ عمل” پر شدید خدشات و تخفظات کا اظہار مختلف احتجاجوں اور مظاہروں کی صورت میں کیا گیا۔ بھارتی ریاستی جبر کے خلاف ریاست پاکستان کی خاموشی اور بے بسی نے تقسیم جموں و کشمیر پر سنجیدہ سوالات کو جنم دیا۔

جولائی-اگست 2022ء میں ان خدشات نے اس وقت حقیقت کا روپ دھارنا شروع کیا جب ریاست پاکستان کی طرف سے آزاد کشمیر اسمبلی کے عبوری آئین میں 15ویں ترمیم کی تجویز پیش کی گئی اور ساتھ ہی ٹورازم اتھارٹی ایکٹ کے نام پر قانون سازی کے لئے راہیں ہموار کرنے کی کوشش کی گئی۔ مجوزہ 15ویں آئینی ترمیم کے ذریعے آزاد کشمیر اسمبلی کے اختیارات کو محدود کرتے ہوئے ریاست جموں کشمیر کی خصوصی اور نیم آزادانہ حیثیت کو تبدیل کرتے ہوئے صوبائی سٹیٹس دینے کی ایک مبہم تجویز پیش کی گئی۔ اس کے ساتھ ساتھ ٹورازم اتھارٹی ایکٹ کے نام پر “قانون باشندہ ریاست” کو ختم کرنے کی کوشش کو بھی تیز کیا گیا تاکہ غیر ریاستی اداروں اور سرمایہ داروں کے لئے کشمیر کی زمینیں اور سیاحتی پہاڑی چوٹیاں ہڑپنے کے راستے ہموار کئے جاسکیں بالکل اسی طرح جس طرح بڑی ہی خاموشی سے گلگت بلتستان کے ساتھ کیا گیا تھا۔

پہلے پہل تو ان منصوبوں کو خفیہ رکھا گیا مگر کچھ عرصہ قبل مجوزہ ترمیم اور ایکٹ صحافتی و سوشل میڈیائی حلقوں میں بہت شدت کے ساتھ زیر بحث آ گئے۔ باشعور سیاسی کارکنوں اور عوام نے ان دونوں اقدامات کو 2019ء کے بھارتی اقدامات کا ہی تسلسل قرار دیا اور ان متنازع اقدامات کے خلاف عوامی مزاحمت کا آغاز ہوگیا۔

بجلی کی لوڈشیڈنگ اور بلات پر فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز و دیگر ظالمانہ ٹیکسز کے خلاف اور آٹے پر سبسڈی کی بحالی جیسے عوامی مطالبات کے گرد ضلع پونچھ میں ایک عوامی مزاحمتی تحریک پہلے سے ہی چل رہی تھی. ریاست نے بدترین جبر کے ذریعے عوامی ایشوز کے گرد شروع ہونے والی اس تحریک کو دبانے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں عوامی تحریک مزید منظم ہونا اور پھیلنا شروع ہوئی۔ اسی دوران جب کشمیر کی خصوصی حیثیت اور تشخص پر وار کرنے کی بحث عام ہوئی تو تحریک مزید وسعت اختیار کرنے کی طرف بڑھی جس کے باعث کشمیر کی مقامی سیاسی اشرافیہ بھی اسکا حصہ بننے پر مجبور ہوئی۔یہ اس عوامی تحریک کا ہی نتیجہ تھا کہ ایک طرف مقامی سیاسی اشرافیہ نے آل پاکستان نواز سیاسی پارٹیوں کی کانفرنس بلائی اور اپنے ایک مشترکہ اعلامیے کے ذریعے اس مجوزہ 15ویں آئینی ترمیم اور ٹورازم اتھارٹی ایکٹ کو مسترد کیا تو دوسری طرف آزاد کشمیر حکومت نے عوامی تحریک سے مزاکرات کے ذریعے ترمیم اور ایکٹ کی موجودہ مجوزہ شکل کو اسمبلی میں پیش نہ کرنے کا تحریری معائدہ کیا، تمام اسیران کو غیر مشروط رہا کیا گیا جبکہ دیگر عوامی ایشوز کے حل کے لیے دو ماہ کا وقت لیتے ہوئے وقتی طور پر تحریک کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی گئی۔

لیکن تحریک نے اگر پونچھ میں وقفہ لیا ہے تو ساتھ ہی میرپور، نیلم ویلی، نکیال اور مظفرآباد میں بھی انہی ایشوز کے گرد شٹرڈاؤن اور پہیہ جام ہڑتال کی گئی ہے۔ تحریک ایک ضلع سے دوسرے ضلع تک وسعت اختیار کر رہی ہے۔ شاید تحریک کے مزاحمتی کردار کو دیکھ کر ہی سرکاری ملازمین بھی گزشتہ دو دن سے سڑکوں پر ہیں اور حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ انکی تنخواہوں میں اضافہ کیا جائے۔

ان قومی ایشوز اور عوامی ایشوز کے گرد تحریک مزید منظم ہوگی کیونکہ ایک طرف حکمران عوام کے مسائل کو حل کرنے میں ناکام ہیں، مہنگائی کا طوفان امڈتا چلا جا رہا ہے تو دوسری طرف بھارت اور پاکستان کی ریاستوں نے عالمی سامراجی طاقتوں کی ایماء پر خاموش آمادگی کے تحت ریاست جموں و کشمیر کی تقسیم کے گھناؤنے ایجنڈے کو حتمی شکل دینی ہے اس میں دیر سویر تو ممکن ہے لیکن آخری تجزیے میں اس نظامِ زر کے تحت اب دونوں ریاستوں کے پاس شاید ممکنہ ریاستی حل یہی ہے اور اسکو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لئے وہ تمام تر ریاستی ہتھکنڈے استعمال کریں گے۔

بطور مارکسسٹ اور سوشلسٹ سیاسی کارکن ہم سمجھتے ہیں کہ وحدت و تشخص ریاست جموں و کشمیر کی بحالی کے لئے ناگزیر ہے کہ جموں و کشمیر کے قومی سوال اور قومی مسئلے کو بالخصوص برصغیر اور بالعموم دنیا بھر کی مظلوم قومیتوں اور محنت کشوں کے ساتھ طبقاتی بنیادوں پر جوڑتے ہوئے آگے بڑھایا جائے۔ جموں و کشمیر کی عوام کو پاکستان اور بھارت کے مظلوم و محکوم طبقات اور عوام کو واضح پیغام دینا ہوگا کہ وہ انکے حق خودارادیت پر حملے کے خلاف اور اپنے طبقاتی استحصال کے خلاف اپنے اپنے حکمرانوں کے خلاف آواز بلند کریں۔ کیونکہ ناصرف ان ریاستوں بلکہ دنیا بھر کی مظلوم قومیتوں کے محنت کش عوام کے بنیادی معاشی و سیاسی مسائل ایک جیسے اور مشترک ہیں، لہٰذا انکے خلاف جدوجہد بھی ایک جیسی اور مشترک ہی بنتی ہے۔

خطے کے تمام محنت کشوں اور مظلوموں کو اپنی قومی آزادی کی تحریکوں کے دریاؤں کا رخ طبقاتی آزادی کے سمندر کی طرف موڑنا ہوگا۔ کیونکہ برصغیر کی تمام قومیتوں کے طبقاتی اتحاد پر قائم ایک رضاکارانہ سوشسلٹ فیڈریشن ہی قومی جبر و استحصال اور معاشی و سیاسی غلامی سے دائمی نجات دلوا سکتی ہے۔ کیونکہ اس خطے کی نام نہاد آزادیوں کا 75 سالہ تجربہ یہ ثابت کرتا ہے کہ محض سرحدیں بدلنے سے عوام کی تقدیریں نہیں بدلی جاسکتیں اور نہ ہی انکے بنیادی مسائل حل کئے جا سکتے ہیں۔

عوام کی تقدیریں بدلنے اور انکے بنیادی مسائل کو حل کرنے کے لئے لازم ہے کہ طبقات پر مبنی اس مروجہ معاشی، سیاسی اور سماجی نظام کو یکسر بدلا جائے اور ایک ایسے متبادل معاشی و سیاسی نظام کی بنیاد رکھی جائے جہاں تمام قومیتوں کا برابری کی بنیادی پر ایک رضاکارانہ اتحاد ہو، جہاں غلہ پیدا کرنے والے خوراک سے محروم نہ ہوں، کپڑا بننے والوں کے بچے لباس سے محروم نہ ہوں، محلات تعمیر کرنے والے فٹ پاتھوں پر نہ سوتے ہوں، گاڑیاں بنانے والے پیدل سفر کرنے پر مجبور نہ ہوں، مفت اور جدید تعلیم کے دروازے سب پر بلاتفریق یکساں طور پر کھلے ہوں، مفت اور جدید سائنسی علاج ہر انسان کا بنیادی حق ہو، ہر شخص کو اسکی صلاحیت کے مطابق روزگار کی فراہمی اور اسکی ضرورت کے مطابق وسائل کی دستیابی یقینی ہو، غرض بنیادی انسانی ضروریات و سہولیات ہر شہری کو یکساں طور پر اور بلاتفریق میسر ہوں۔

ایسے متبادل معاشی نظام کا قیام محنت کش عوام کی طبقاتی جنگ و جدل کے بغیر ممکن نہیں اور یہ طبقاتی معرکہ منظم و اجتماعی طبقاتی شعور کے بغیر سر نہیں کیا جا سکتا۔ لہٰذا آج کے عہد کا سب اہم فریضہ یہی ہے کہ حکمرانوں کی طرف سے پھیلائی ہوئی نفرتوں اور تقسیموں کے خلاف طبقاتی اتحاد کے شعور کو اجاگر اور منظم کرتے ہوئے طبقاتی لڑائی کو تیز تر کیا جائے تاکہ انسانیت کو حقیقی معنوں میں ظلم، جبر، غلامی اور استحصال سے “آزاد” کروایا جا سکے۔