آفیشل سیکرٹس ایکٹ : ایک بھونڈا مذاق

Share this

تحریر : الطاف بشارت

مئی 9 کے فسادات

نو مئی 2023 کے فسادات 1920 کے اٹلی کی گلیوں کے مناظر پاکستان میں دہراتے نظر آئے. 1919 میں سوشلسٹوں اور دیگر فاشزم مخالف رحجانات کی سیاسی اور معاشی تنظیموں کو برباد کرنے کے لیے بائیں بازو کے کارکنوں اور یہودیوں کے خلاف اپنے بدنام زمانہ تشدد کے لیے مشہور مسولینی کی بلیک برگیڈ متحرک ہوئی تو ایسا ہی انتشار اور ہراس اطالوی گلیوں میں رقصاں تھا. سوشلسٹوں کو گھیرے میں لے لیا گیا یونینز اور پارٹیوں کے دفاتر نذر آتش کر دئیے گئے. کمیونزم کے خوف میں مبتلا زمینداروں کی برائے راست امدادا سے مقامی آبادی کو دہشت زدہ کرتے ہوئے مقامی حکومتی اداروں اور املاک پر حملے اور ان کو کام سے روکنا ایک معمول بن گیا تھا

اگر مئی 9 کے فسادات بلیک برگیڈ کی یادیں تازہ کر رہے تھے تو عمران خان  1943 میں اقتدار سے برطرف ہو کر نازیوں کی مدد سے کٹھ پتلی ریاست بنانے کی کوشش میں مصروف مسولینی کے کردار کو از سر نو نبھاتے نظر آ رہے ہیں- یوں 1920 اور 1943 میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات کا ایک مکسچر پاکستان کے سماجی پردے پر تھرکتا نظر آ رہا ہے وہ پوری انسانی جمہوری تاریخ کا تمسخر تھا یہ پاکستان کی تاریخ کا تمسخر- اس تمسخر میں فقط 27 ہزار لوگوں نے حصہ لیا (1922 کے “روم پر مارچ” میں انتہائی غیر منظم منتشر، 5، 5 ، 10 ، 10 کی ٹولیوں میں پورے اٹلی سے صرف 27 ہزار لوگوں نے شرکت کی اور تمام بلیک برگیڈ کے ممبر تھے) تو پاکستانی تاریخ کے اس تمسخر میں اس سے بھی کم تعداد میں یوتھیوں نے شرکت کی- 1922 میں اطالوی مسلح ادارے اسی طرح ادھیڑ بن میں اور ایک یا دوسرے کی حمایت میں تقسیم بے بس تھے، یہاں بھی ایسی ہی کہانی نظر آ رہی ہے

مئی 9 کے فسادات بنیادی طور پر احتساب سے بچنے اپنے مخالفین کو دبدبے میں لانے اور معاشرے میں خوف و ہراس پھیلانے کے لیے تشدد اور دھمکیوں کا ایک حربہ تھا- یہ فسادات معاشی، سماجی یا سیاسی حالات پر غصے یا مایوسی کا بے ساختہ اظہار نہیں تھے بلکہ یہ جمہوری اصولوں کے منافی اور حقیقی شکایت سے بہت دور ذاتی وفاداریوں اور مفاد کی بنیاد پر افراتفری اور انتشار پھیلانے کی منصوبہ بند کوشش تھی- خود عمران خان اور ان کے رہنماؤں نے اپنی پروپیگنڈہ مشین کے استعمال سے اپنے حریفوں کو بدنام کرتے ہوئے رائے عامہ کو خراب کرنے کے لیے جھوٹی اور غلط معلومات پھیلا کر اپنے پیروکاروں کو حکام کی توہین اور تشدد پر اکسایا- انہیں گمراہ کرنے اور توڑ پھوڑ کو جواز دینے کیلیے جھوٹے الزامات، دغا بازی اور اشتعال انگیز بیان بازی کا استعمال کیا گیا- اپنے آپ کو اسلام کے برگزیدہ محافظ اور کرپشن کے دشمن کے طور پر ظاہر کرنے کے لیے لوگوں کے مذہبی جذبات اور نسلی تعصب کو استعمال کیا گیا- جب یہ اپنے دعووں کو پورے کرنے میں ناکام ہوئے تو اپنی کرپشن، نااہلی اور کمزوری کو چھپانے کیلیے تشدد اور تصادم کا سہارا لیا گیا- یہ تمام کے تمام فاشسٹ ہتھکنڈے ہیں

جب پی ٹی آئی 2018 میں اقتدار میں لائی گئی تو اس کا بنیادی مقصد ہی انتہائی قوم پرستی پر مبنی یک جماعتی آمریت کا قیام اور پارلیمانی نظام کو صدارتی نظام سے بدلنے کا منصوبہ تھا- اپنے اقتدار کو طوالت دینے کیلیے سیاسی حریفوں کو بدنام کرنے کیلئے جو پروپیگنڈہ استعمال کیا گیا اس نے حریفوں کو تو کم بدنام کیا لیکن ملک کو عالمی تنہائی میں دھکیل دیا- جب عدم اعتماد کے ذریعے پارلیمنٹ سے باہر کرتے ہوئے اس منصوبے کا تدارک کیا گیا تو عوام کی شکایات اور مایوسیوں کا فائد اٹھا کر معصوم شہریوں اور سیکورٹی فورسز کی زندگیوں کو خطرے میں جھونک کر وبائی امراض، اقتصادی بحران، علاقائی کشیدگی اور اندرونی خلفشار سے لڑتے ہوئے ملک کے اقتدار پر قبضے کا ڈراوا دیتے ہوئے بغیر کسی عوامی مفاد کے منصوبے کے صرف اور صرف بربادی کے لیے دہشتگردی کا ہتھیار استعمال کیا گیا. یہ انارکسزم کا وہ ہتھکنڈا ہے جو عوامی تحریکوں اور سامراج مخالف قوتوں کو برباد کرنے کے جواز تراشنے کے لیے ریاست اور سرمایہ دار طبقے کا پسندیدہ ترین رہا ہے- 9 مئی کے فسادات عمران خان کے حامیوں کے تشدد، انارکی اور انسانی حقوق کی پامالی کا شرمناک مظاہرہ تھا

یہ فسادات عوامی مفادات، خودمختاری اور قومی مفادات سے غداری کے زمرے میں آتے ہیں- ہر جمہوریت پسند شہری اور ہر سوشلسٹ کو ان فسادات کی نہ صرف مذمت کرنی چاہیے متعلقہ حکام کی طرف سے تحقیقات اور لوگوں کو انارکی پر اکسانے والے افراد کے خلاف کارروائی کا بھی مطالبہ کرنا چاہیے- پی ٹی آئی چونکہ ایک فاشسٹ رجحان ہے اس رجحان کے خلاف منظم کاروائی ہی مزدور تحریک اور عوامی تحریک کی کامیابی کا ضامن ہو سکتا ہے لیکن اس رجحان کے خلاف ریاستی جبر کے ذریعے نہیں سیاسی میدان میں جدوجہد کی جانی چاہیے

کیا واقعی سوشلسٹوں کو ان فسادات کی مذمت کرنا چاہیے؟

ایک نقطہ نظر کا ماننا ہے کہ اگر تخلیق پاکستان سے اب تک کے روا رکھے گئے ریاستی جبر، استحصال اور اس ریاست کے کردار پر عوام نے اپنے غم و غصے کا اظہار کیا ہے تو ہمیں اس کی مذمت نہیں کرنا چاہیے! جیسا کہ ہم نے اوپر دیکھا یہ کسی بھی طرح کے سیاسی نظریات سے عاری، عوامی مفادات کے منافی اور مزدور تحریک کیخلاف ریاستی جبر کو زیادہ حوصلہ دینے والے اور حقیر سی تعداد پر مبنی گروہ کی جانب سے منصوبہ بند فسادات تھے- ان فسادات نے نہ صرف مستقبل میں حقیقی مسائل پر ہونے والے احتجاجوں کے لیے حالات مزید تلخ بنا دئیے ہیں بلکہ ریاست کو وہ ٹیسٹ کیس بھی فراہم کیا ہے جو کسی بھی بڑی عوامی تحریک سے نبٹنے کیلیے نہ صرف راستہ ہموار کرے گا بلکہ اس کی پریکٹس کا سامان بھی بنے گا- ہم سوشلسٹ اس طرح کے اقدامات کو انفرادی دہشتگردی کہتے ہیں- ایک طرف تو یہ انفرادی دہشتگردی ریاستی دہشتگردی کو جواز بخشتی ہے تو دوسری طرف اس کے سماجی نفسیات پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں. یہ انفرادی دہشتگردی عوام کے اپنے شعور میں ان کے کردار کی اہمیت کو کم کرتے ہوئے انہیں ان کی بیگانگی اور بے بسی سے ہم آہنگ کرتی ہے- ہیروز تراشتے ہوئے ان کی اور مصائب کے خاتمے کی جدوجہد میں عوامی کردار پر سے یقین ختم کرتے ہوئے عوام کی نظریں کسی مسیحا کے انتظار میں لگا دی جاتی ہیں- یہ مزدور تحریک کیلیے زہر قاتل ہیں

مارکسزم میں دہشتگردی کے سوال کیلیے مربوط اور مستقل نقطہ نظر جس کی بنیاد طبقاتی جدوجہد اور بین الاقوامیت کی بنیاد پر مبنی ہے- انفرادی اور ریاستی دہشتگردی کو سامراجی ریاستیں اور فاشسٹ تحریکیں دونوں اپنے مفادات کیلئے استعمال کرتی ہیں- ریاستی دہشتگردی سرمایہ دارانہ نظام اور اس کے سماجی ڈھانچے کے مفادات کیلیے طبقاتی جبر اور تشدد کا ایک آلہ ہے تو انفرادی دہشتگردی عوامی حقوق اور مزدور جدوجہد کیلیے زہر قاتل- لینن اپنی کتاب ریاست اور انقلاب میں اس کا خلاصہ یوں کرتے ہیں :
“ہم انارکیسٹ نہیں ہیں۔ ہم تشدد سے انکار نہیں کرتے۔ ہم کہتے ہیں کہ استحصال کرنے والوں کو اکھاڑ پھینکنے اور ایک نیا معاشرہ بنانے کے لیے تشدد ضروری ہے۔ لیکن ہم یہ بھی کہتے ہیں کہ تشدد کا استعمال ہوش مند ہونا چاہیے۔ منظم طریقے سے، ایک ایسے طبقے کے ذریعے جو اپنی آزادی کے لیے لڑ رہا ہے، نہ کہ ان افراد کے ذریعے جو اپنی مرضی پر عمل کرتے ہیں۔”

ہم انفرادی اور ریاستی دہشتگردی گردی کو مسترد کرتے ہیں بقول لینن “ہم دہشت گرد نہیں ہیں۔ ہم لوگوں کے قتل کے خلاف ہیں۔ ہم دہشت گردی کے اس لیے خلاف ہیں کیونکہ یہ محنت کش طبقے کو طبقاتی جدوجہد سے ہٹاتی ہے. اور اس لیے بھی کہ دہشت گردی کی انفرادی کارروائیاں خواہ کتنی ہی نیک نیتی سے کیوں نہ ہوں، حکومت کو کمزور نہیں کر سکتیں۔”

آفیشل سیکرٹس ایکٹ 1923

ان فسادات کی بنیاد پر عام شہریوں پر ایک متروکہ قانون کے تحت فوجی عدالتوں میں مقدمات چلائے جانے کا فیصلہ قابل مذمت ہے- دنیا میں تقریباً 40 سے زائد ممالک میں آفیشل سیکرٹس ایکٹ لاگو ہے اور ان میں اکثریت ان ریاستوں کی ہے جو برطانوی نو آبادیات رہی ہیں- کہا جاتا ہے کہ پاکستان 1947 میں آزاد ہوا تھا لیکن بقول خلیل جبران چمکتے ستاروں تلے اس طرز کی آزادی ایک المیہ ہے- یہ قانون کالونیوں میں استعمار کے مفادات کو تحفظ دینے کیلیے لاگو کیا جاتا تھا- ہر وہ تحریک یا تحریر جو برطانوی مفادات کے خلاف ہوتی (خواہ اس میں عوامی بھلائی کے کتنے پہلو سموئے ہوئے ہوں) اس کا اسی ایکٹ کی بنیاد پر سیاسی شکار کیا جاتا رہا- یقینی طور پر ملکی سالمیت اور بقاء کا کوئی قانون ضرور ہونا چاہیے لیکن نوآبادیاتی غلامی کا یہ قانون بنا کسی ترمیم لاگو کیا جانا انسانی حقوق اور عالمی قوانین کی نظر میں قابل قبول نہیں ہو سکتا- یہ اختلاف رائے کی شکار گاہ میں وہ ہتھیار ہے جب کبھی کہیں بھی کسی بھی حیلے کی بنیاد پر اپنے مخالف نقطہ نظر کو دبانے کیلیے استعمال کیا جا سکتا- کیونکہ اس قانون کو توڑنے کی کوئی بھی واضع تعریف موجود نہیں

آفیشل سیکرٹس ایکٹ 1923 فرسودہ اور جابرانہ ہے- یہ آزادی اظہار رائے پر قدغن اور طاقتور طبقات کی غلط کاریوں کو چھپانے کے لیے استعمال ہونے والا ایک اوزار ہے- یہ معلومات تک رسائی کے آئینی حق کی خلاف ورزی ہے- انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، سیاست میں مداخلت یا پھر کسی بھی بدعنوانی کی تحقیقات میں یہ مسلح اداروں کی ڈھال بن جاتا ہے- یہ ریاست کے ہاتھوں میں وہ ڈھال ہے جو صرف دفاع کا کام نہیں کرتی بلکہ مخالفین کو تباہ کرنے کا کام بھی خوش اصلوبی سے کرتی ہے

یہ قانون انسانی حقوق کے عالمی اعلامیہ کے آرٹیکل 19؛ شہری اور سیاسی حقوق کے بین الاقوامی معاہدے کے آرٹیکل 19؛ انسانی حقوق کے یورپی کنونشن کے آرٹیکل 10؛ انسانی اور عوامی حقوق سے متعلق افریقی چارٹر کے آرٹیکل 9؛ آئین پاکستان کے آرٹیکل 19اے؛ معلومات تک رسائی آرڈیننس 2008؛ معلومات تک رسائی ایکٹ 2013 خیبر پختون خواہ؛ پنجاب شفافیت اور معلومات تک رسائی کے 2013 کے ایکٹ سے متصادم ہے

یہ ایکٹ ان معلومات کی رسائی کو عوام سے دور رکھ سکتا ہے جو جمہوری عمل میں شریک ہونے کیلیے جانا ان کا بنیادی حق ہے جیسا کہ بجٹ کی تفصیلات، دفاعی اخراجات، خارجہ پالیسی اور انتخابی اصلاحات وغیرہ کی معلومات- اس قانون کے تحت شہریوں کا ٹرائل غیر منصفانہ ہے متعصب ہے

یہ قابل قبول نہیں ہو سکتا کہ نوآبادیاتی قوانین کی بنیاد پر عوام کے حقوق اور وقار کو پامال کیا جائے- مصنوعی تقسیم، نسلی، مذہبی، فرقہ وارانہ اور لسانی تعصبات اور تنازعات نہ تو عوام کے حق میں ہیں نہ کسی اور کے لیے قابل برداشت ہو سکتے ہیں- یہ ایک انتہائی بدمزہ اور بھونڈا مذاق ہے

اس پر طرہ یہ کہ یہ ایکٹ اور فوجی عدالتوں کا ٹرائل آپس میں مل جائے تو کیا سزائے موت کے علاوہ کوئی گنجائش باقی رہ جاتی ہے؟ کیا 1848 میں امریکہ سے شہرت پانے والی ان کینگرو کورٹس نے کبھی حقائق کو ملحوظ خاطر رکھا، کبھی منصفانہ ٹرائل کا حق دیا گیا؟ کیا بحیثیت شہری ہم ایک جمہوری (نام نہاد ہی سہی) معاشرے میں کسی ایسی قدغن کا دفاع کیا جا سکتا ہے جو لوگوں کا اس بنیاد پر محاسبہ شروع کر دے کہ وہ عوامی مفادات اور لوگوں کے حقوق کے لیے سوچتا ہے

یقیناً آپ سب لاہور سازش مقدمے سے واقف ہوں گے جس میں مشہور زمانہ انقلابی، بھگت سنگھ، سکھ دیو تھاپر، شیو رام راج گرو اور دیگر پر آفیشل سیکرٹس ایکٹ کے تحت مقدمہ ان کے تختہ دار پر جھولنے پر ختم ہوا

یقینی طور پر آپ میرٹھ سازش کیس سے بھی واقف ہوں گے جو اسی ایکٹ کے تحت 1929 سے 1933 تک چلتا رہا- جو برصغیر کے معروف کمیونسٹوں، ایس اے ڈانگے، مظفر احمد، گرو شنکر اور دیگر کے خلاف چلتا رہا جس کا اختتام عوامی پریشر پر ان کی بری کی صورت میں ہوا

یقینا آپ 1945-46 کے انڈین نیشنل آرمی ٹرائل کے کرداروں، سبھاش چندر بوس، راش بہاری بوس، شاہنواز خان، پریم کمار سہگل، گربخش سنگھ ڈھلوں سے بھی واقف ہوں گے- ان تمام پر آفیشل سیکرٹس ایکٹ کے تحت مقدمات چلائے گے تھے- ہم سوشلسٹ آج سے نہیں بلکہ برسوں سے اس ایکٹ کی مخالفت کرتے آئے ہیں

اور پھر پاکستان کی تاریخ کا متنازعہ ترین ٹرائل جس کے نتیجے میں 4 اپریل 1979 کو پاکستان کے جد ثانی ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا- یہی مصنوعی عدالتیں تھی یہی فرسودہ قانون تھا- 1923 سے 2023 تک کی ایک صدی کے واقعات اور مقدمات چیخ چیخ کر ان مصنوعی عدالتوں اور اس قانون کے خاتمے کا مطالبہ کر رہے ہیں- ملکی سالمیت اور بقاء کے لیے اگر ناگزیر ہے تو باضابطہ تعریف کے تحت نیا ضابطہ بنا لیا جانا چاہیے

اپنے اختیارات سے تجاوز کی شکل میں یا اپنے دائرے کار کو بڑھانے کے لیے لئے گئے کسی بھی اقدام کی شکل میں یا کسی دہشتگرد گروہ کی طرف سے کی جانے والی کوششیں ہوں فاشزم ہر اعتبار سے سرمایہ دارای کہ سب سے غلیظ، ننگی، بے شرم، جابرانہ اور دغا باز شکل ہے- یہ محنت کش طبقے کسانوں، دانشوروں، سیاسی حلقوں کے خلاف دہشتگرانہ انتقام کی تنظیم ہے- یہ سرمایہ دارانہ معیشت کے زوال اور انحطاط کا اظہار اور سرمایہ دارانہ ریاست کے تحلیل ہونے کی علامتوں میں سے ایک ہے- بقول ٹراٹسکی کے “فاشزم کا تاریخی کام محنت کش طبقے کو توڑنا، اس کی تنظیموں کو تباہ کرنا اور سیاسی آزادیوں کو سلب کرنا ہے- یہ اس وقت ظاہر ہونا شروع ہو جاتا ہے جب سرمایہ دار خود کو جمہوری مشینری کی مدد سے حکومت کرنے اور غلبہ پانے میں ناکام محسوس کرتے ہیں”-

فاشزم کی کوئی بھی شکل ہو اس کے خلاف لڑنا ہی مزدور تحریک اور سوشلسٹوں کا فریضہ ہے- ہم نہ تو انفرادی دہشتگردی کی حمایت کرتے ہیں نہ ہی ریاستی دہشت گردی- ہم دہشتگردی کی ہر اک شکل کو رد کرتے ہیں- ہم یہ سمجھتے ہیں کہ دہشتگردی کو ختم کرنے کا واحد راستہ ان سماجی حالات کا خاتمہ ہے جو دہشتگردی کی ہر شکل کو جنم دیتے ہیں، یعنی بورژوازی کے ہاتھوں پرولتاریہ کے استحصال اور بیگانگی کا خاتمہ- اس سب کے لیے انفرادی نہیں بلکہ مجموعی پرولتاریہ اور ایک ملک کے محنت کشوں کی دوسرے ملک کے محنت کشوں کی جڑت کی بنیاد اور طبقاتی جدوجہد کی صورت میں ہی ممکن ہے-