Share this
تحریر: مائیکل رابرٹس
ترجمہ: کبیر خان
بڑی معیشتیں اگر پہلے سے کساد بازاری کا شکار نہیں ہیں تو اب بڑی تیزی سے اس جانب بڑھ رہی ہیں اور تاحال افراط زر کی شرح میں اضافہ جاری و ساری ہے۔ کاروباری سرگرمیوں کا تازہ ترین سروے (پرچیزنگ مینیجرز انڈیکس :PMIs) ظاہر کرتا ہے کہ یورو زون اور امریکہ دونوں اقتصادی سکڑاؤ والی صورتحال کا شکار ہیں (یعنی 50 سے نیچے کی کوئی بھی سطح)۔ جولائی میں بڑی معیشتوں کے لئے مخلوط PMIs (جو مینوفیکچرنگ اور خدمات دونوں کو ایک ساتھ رکھتے ہیں) مندرجہ ذیل منظر نامہ پیش کرتے ہیں۔
امریکہ 47.5 (سکڑاؤ)
یوروزون 49.4 (سکڑاؤ)
جاپان 50.6 (سست نمو)
جرمنی 48.0 (سکڑاؤ)
برطانیہ 52.8 (سست نمو)
روسی توانائی کی درآمدات پر پابندیوں کے اثرات کو دیکھتے ہوئے، یوروزون کی اس کارکردگی سے کسی کو حیرت زدہ نہیں ہونا چاہیے، جو یورپ کے کلیدی حصے میں صنعتی پیداوار کو بری طرح کمزور کر رہی ہے (نیچے ملاحظہ کریںس)۔
جرمنی کی صنعتی پیداوار میں مسلسل ہوتی کمی کو تین ماہ سے زائد کا عرصہ ہو گیا۔
بڑا جھٹکا امریکہ میں تھا۔ امریکی کمپوزٹ پی ایم آئی بھی جون کی 52.3 کی سطح سے تیزی سے گراوٹ کا شکار ہو کر جولائی میں 47.5 پر سکڑاؤ کی سطح سے نیچے گر گیا، جو کہ نجی شعبے کی پیداوار میں ٹھوس گراوٹ کا واضح اشارہ ہے۔ گراوٹ کی شرح مئی 2020ء میں وبائی امراض کے ابتدائی مراحل کی گراوٹ سے بھی تیز تھی، کیونکہ مینوفیکچررز اور سروس فراہم کرنے والے دونوں نے مانگ میں کمی کی صورتحال کی اطلاعات دیں۔ اسی طرح جیسے ہی ہم 2022ء کے دوسرے وسطی حصے میں داخل ہو رہے ہیں امریکی کاروباری سرگرمیاں ڈوب رہی ہیں۔
اٹلانٹا فیڈرل ریزرو بینک (GDP NOW) ماڈل کے تازہ ترین تخمینے کے مطابق حقیقی GDP نمو میں جون تک کے ان تین مہینوں میں امریکی معیشت منفی 1.6 فیصد سالانہ کی شرح سے سکڑی ہے، جو کہ اس کی پہلی سہ ماہی میں منفی 1.6 فیصد کی اسی طرح کی گراوٹ سے مماثل ہے۔ اگر اس تخمینے کی اگلے ہفتے میں تصدیق ہو جاتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ امریکہ تکنیکی اعتبار سے کساد بازاری کا شکار ہو گیا ہے۔
مندرجہ بالا دعوے کا موجودہ جواب یہ دیا جاتا ہے کہ: امریکی معیشت کس طرح کساد بازاری میں یا اس کے قریب ہو سکتی ہے، جبکہ بے روزگاری کی شرح پچھلے تمام عرصے کی کم ترین سطح کے قریب ہے اور تنخواہوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے؟ بہرحال یہ جواب خاصا مشکوک ہے۔ سب سے پہلے، امریکہ میں روزگار کے سلسلے میں دو اقدامات اٹھائے جاتے ہیں: تنخواہوں (پے رولز) کے اعداد و شمار اور گھریلو سروے (یعنی ملازمت والے گھرانوں کا سروے)۔ مؤخر الذکر فی الحال اول الذکر کے بالکل برعکس دکھا رہا ہے، یعنی باروزگار امریکیوں کی تعداد میں کمی واقع ہو رہی ہے۔اسی گھریلو سروے کے اقدام سے لیبر فورس کا سکڑاؤ ظاہر ہوتا ہے جو کہ 164.376 ملین سے کم ہو کر 164.023 ملین رہ گئی ہے اور شرکت کی شرح (جو کام کرنے والی کل عمر کی آبادی کے مقابلے میں کام پر موجود ہیں) توقع سے زیادہ 62.2 فیصد تک گر گئی ہے۔ نیچے کا گراف اس حقیقت کی وضاحت کرتا ہے۔
نیز، بے روزگاروں کے ابتدائی کلیمز (لوگوں کی وہ تعداد جو بیروزگاری کے باعث، ریاست سے بیروزگاری الاؤنس وغیرہ طرز کے کلیمز جمع کرواتے ہیں) اب مسلسل بڑھ رہے ہیں۔
اور دستیاب نئی ملازمتوں کی تعداد کا سروے ( جولٹس یو ایس ڈیپارٹمنٹ آف لیبر کے بیورو آف لیبر اسٹیٹسٹکس کے ذریعہ جاری کردہ امریکی ملازمت کی خالی آسامیوں، ملازمتوں اور ملازمتوں سے علیحدگی کا ایک ماہانہ سروے ہے) عروج پر ہے۔
دوسرا، اور سب سے اہم عنصر بے روزگاری میں اضافہ کساد بازاری کی جانب بڑھنے کا اشارہ ہے۔ (ابتدائی اشاروں میں کارپوریٹ منافع اور کاروباری سرمایہ کاری کی حرکیات، اس کے بعد پیداوار اور پھر بالترتیب بے روزگاری آتے ہیں). ملازمت سب سے آخر میں آتی ہے کیونکہ یہ تبھی بڑھتی ہے جب کارپوریشنیں لوگوں کو مزید ملازمتوں پر رکھنا بند کر دیتی ہیں اور اپنی افرادی قوت کو کم کرنا شروع کر دیتی ہیں، وہ ایسا تب ہی کرتی ہیں جب منافع اور پیداوار میں کمی آنے لگتی ہے۔ اور، ہمہ وقتی بلندیوں تک پہنچنے کے بعد، منافع کا مارجن گرنا شروع ہو چکا ہے۔
کووڈ کی گراوٹ کے دورانیے میں اجرتوں کے مقابلے میں منافعوں میں تیزی سے اضافہ ہوا اور کارپوریشنیں بڑھتی ہوئی افراطِ زر میں اور فائدہ اٹھانے والوں میں آگے آگے رہیں۔ اب یہ بدلنا شروع ہو چکا ہے کیونکہ اجزاء کی بڑھتی ہوئی لاگت اور مانگ میں کمی کی وجہ سے منافع نچوڑا جاتا ہے۔
لیکن یہ یورپ ہے جہاں اقتصادی گراوٹ کے زیادہ واضح آثار دکھائی دے رہے ہیں۔ یہ صرف معاشی ترقی کے اعداد و شمار نہیں ہیں جو اس کی حمایت کرتے ہیں۔ مزید برآں، یورپ کو توانائی کی پیداوار اور درآمدات پر بہت زیادہ دباؤ کا سامنا ہے کیونکہ روسی گیس اور تیل کی درآمدات پر جو پابندیاں لگائی جا رہی ہیں ان کی تلافی کسی اور جگہ کی درآمدات سے نہیں ہوگی۔
بہت سے جرمن مینوفیکچررز خبردار کر رہے ہیں کہ اگر توانائی کی درآمدات مسدود ہوگئیں تو انہیں پیداوار کو مکمل طور پر بند کرنا پڑے گا۔ جرمنی کی سب سے بڑی امونیا پیدا کرنے والی کمپنی کے چیف ایگزیکٹیو پیٹر سنگر اور ڈیزل انجنوں کے لئے کھاد اور ایگزاسٹ فلوئڈز کے کلیدی سپلائر نے روسی گیس کی سپلائی بند ہونے کے تباہ کن نتائج سے خبردار کیا۔ “انہوں نے کہا کہ ہمیں [پیداوار] کو فوری طور پر 100 سے صفر کی سطح تک بند کرنا ہوگا” ۔ یو بی ایس کے تجزیہ کاروں کے مطابق، موسم سرما کے لئے کوئی گیس نہ ہونے کے نتائج “گہری کساد بازاری” کی شکل میں برآمد ہوں گے، جس کے ساتھ جی ڈی پی اگلے سال کے آخر تک 6 فیصد سکڑ جائے گی۔ جرمنی کے بنڈس بینک نے خبردار کیا ہے کہ عالمی سپلائی چین سے کسی بھی روسی کٹ آف کے نتائج اصل جھٹکے کے اثرات کو ڈھائی گنا بڑھا دیں گے۔ جرمنی کی سب سے بڑی سٹیل بنانے والی کمپنی تھیسن کرپ نے کہا ہے کہ قدرتی گیس کے بغیر ہماری بھٹیوں کو چلانے کے لئے “شٹ ڈاؤن اور سہولیات (تنصیبات) کے تکنیکی نقصان کو خارج ازامکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔”
اور یہ اس سے بھی بدترین ہے. زیادہ تر یورپی معیشتوں میں افراط زر اب بھی بڑھ رہا ہے۔ لہٰذا یورپی مرکزی بینک (ای سی بی) نے فیصلہ کیا ہے کہ اسے شرح سود میں اضافہ کے عمل کو تیز ترین کرنا پڑے گا۔ اس نے گزشتہ ہفتے اپنی پالیسی کی شرح کو؛ 50بی پی ایس؛ تک بڑھایا، جو توقع سے زیادہ ہے، ایک دہائی میں پہلی بار شرح کو مثبت دائرہ میں لے جایا گیا۔ ‘پیسے چھاپنے کے مصنوعی عمل’ (QE) کے ‘QT’دنوں کی جگہ ‘پیسوں میں سختی’ نے لے لی ہے۔
لیکن یہ اقدام اٹلی جیسے ممالک کے لئے بدترین وقت پر آیا ہے جو روسی توانائی پر بہت زیادہ انحصار کرتے ہیں۔ گزشتہ ہفتے سابق ای سی بی کے سربراہ اطالوی ٹیکنو کریٹ وزیر اعظم ماریو ڈریگھی کو اس وقت استعفیٰ دینے پر مجبور کیا گیا جب ان کی مخلوط حکومت میں شامل متعدد جماعتوں نے اپنی حمایت واپس لے لی۔ کچھ نے یہ اس لئے کیا کہ انہوں نے یوکرائن کے لئے فوجی امداد کے لئے اس کی حمایت کی مخالفت کی اور کچھ نے دیکھا کہ یہ ان کے انتخابات جیتنے کے لئے اچھا موقع ہے۔ اٹلی کی جی ڈی پی کے مقابلے میں عوامی قرضوں کا تناسب بہت بڑا ہے۔
ابھی تک، اس قرض کی سروسز کے سود کے اخراجات کم ہیں کیونکہ ای سی بی نے شرح سود کو کم رکھا ہوا ہے، جس نے یورو زون کی حکومتوں کو اربوں کا کریڈٹ بھی فراہم کیا ہے۔ لیکن اب شرح سود میں اضافہ ہو رہا ہے اور اطالوی سرکاری بانڈز میں سرمایہ کاروں کو اس بات کی فکر ہو گئی ہے کہ اٹلی (خاص طور پر ایک قابلِ عمل حکومت کے بغیر) کو ان قرضوں کی ادائیگی میں مشکل پیش آسکتی ہے۔ چنانچہ اطالوی 10 سالہ بانڈز کا منافع 3.5 فیصد سے اوپر ہوگیا ہے۔ اطالوی حکومت کے زوال سے یورپی یونین کو کووڈ ریکوری فنڈز سے اربوں یورو کی تقسیم کا بھی خطرہ ہے، قیاس آرائی ہے کہ اٹلی اس سال اقتصادی ترقی کو بڑھانے جا رہا ہے۔
چنانچہ یورپ کی معیشت اسی طرح نیچے جا رہی ہے جس طرح ای سی بی افراط زر کو کنٹرول کرنے کے لئے شرحِ سود میں اضافہ کئے جا رہا ہے۔ جیسا کہ میں نے اپنی پچھلی تحریروں میں وضاحت کی ہے کہ کمزور پیداواری صلاحیت و سپلائی اور یوکرائن جنگ کی وجہ سے بڑھتی ہوئی افراط زر کو کنٹرول کرنے کے لئے شرحِ سود میں اضافہ، ماسوائے گراوٹ کو بھڑکانے کے کسی اور کام نہیں آئے گا۔
ای سی بی نے اب ٹرانسمیشن پروٹیکشن انسٹرومنٹ (ٹی پی آئی) متعارف کروانے کے لئے ایک مایوس کن اقدام کا سہارا لیا ہے، یہ کریڈٹ کی ایک نئی شکل ہے جو اٹلی جیسی حکومتوں کو دیا جائے گا اگر ان کے بانڈ کی قیمتیں گر جاتی ہیں۔ تاہم، اس کا استعمال شاید کبھی نہ کیا جائے کیونکہ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ECB اٹلی کے مالی اخراجات کے لئے کھلے عام فنانسنگ فراہم کرے گا، جو کہ یورو زون کے تمام ماسٹریٹچ قوانین کے خلاف ہونے کے مترادف ہو گا۔
ای سی بی اس میں پھنس گیا ہے جسے ایک تجزیہ کار نے “خوفناک منظر” کہا ہے۔ برسلز میں قائم بلگر اقتصادی تھنک ٹینک کی نائب سربراہ ماریا ڈیمرٹزس نے کہا، “ہمارے سامنے خطرہ یہ ہے کہ توانائی کے بحران کی وجہ سے یورو ایریا کساد بازاری کا شکار ہو سکتا ہے، جب کہ عین اسی وقت ای سی بی کو بھی اس بحران کا سامنا کرنا پڑے گا اور اگر مہنگائی میں کمی واقع نہ ہوئی تو اسے شرحِ سود بڑھاتے رہنا پڑے گا۔ یو ایس انویسٹمنٹ بینک ایورکور میں پالیسی اور مرکزی بینک کی حکمتِ عملی کے سربراہ کرشنا گوہا نے کہا: “اسلحے سے لیس روسی قدرتی گیس اور اٹلی میں سیاسی بحران سے پیدا ہونے والے بڑے جمود کے جھٹکے کا امتزاج ایک ایسے خوفناک طوفان کے قریب ہے جتنا ای سی بی کے بارے میں بھی تصور کیا جا سکتا ہے۔