Share this
تحریر :مائیکل رابرٹس
ترجمہ : منصور احمد
کل ترکی میں انتہائی اہم عام انتخابات ہو رہے ہیں۔ ترکی کے موجودہ صدر رجب طیب اردوغان 20 سال سے زائد عرصے سے اس عہدے پر فائز ہیں۔ 86 ملین آبادی میں سے 50 ملین سے زائد ووٹ ڈالے جائیں گے اور 5.3 ملین رائے دہندگان نئے نوجوان ہوں گے۔ جن میں کرد بھی شامل ہیں جو آبادی کا تقریبا 18 فیصد ہیں جو نتائج کیلیے فیصلہ کن ثابت ہوسکتے ہیں۔
(انگلش میں پڑھنے کیلیے یہاں کلک کریں)
پہلی بار اردوغان کو انتخابات میں شکست کے خطرے کا سامنا ہے۔ رائے عامہ (اوپینین پول) کے تازہ ترین جائزوں کے مطابق حزب اختلاف کے اتحاد کو اردوغان کے گروپ سے قدرے آگے دکھائی دے رہا ہے، لیکن دونوں فریقین میں سے کوئی بھی 50 فیصد ووٹ حاصل نہیں کر سکتا۔ پارلیمانی نشستوں کے لئے انتخابات کے نتائج میں بھی کوئی بھی فریق اکثریت حاصل کرتا نظر نہیں آ رہا۔
حزب اختلاف مختلف جماعتوں کے اتحاد پر مشتمل ہے جس کی قیادت ایک ریٹائرڈ سرکاری ملازم کمال کلیچدار اوغلو کر رہے ہیں، جنہوں نے “ترک جمہوریت کی بحالی” اور مغرب کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کا عہد کیا ہے۔ کلیچدار اوغلو 2010 سے ترکی کے بانی مصطفی کمال اتاترک کی سیکولر پارٹی رپبلکن پارٹی (سی پی ایچ) کی قیادت کر رہے ہیں۔ انتخابی مہم کے بلکل آخری لمحات میں جب ایک آزاد امیدوار مہریم انس نے اس دوڑ سے دستبرداری اختیار کرنے کا اعلان کیا تو اس سے حزب اختلاف کو تقویت ملی، یہ امکانات ہیں کہ ان کی حمایت حزب اختلاف کے پلڑے میں گرے گی۔
ترکی دنیا کی 19 ویں بڑی معیشت اور جی 20 کا رکن ہے۔ اگرچہ اردوغان کی صدارت کی پہلی دہائی کے دوران ترکی کی معیشت میں ایک حد تک توسیع ہوئی لیکن اس کا بڑا اور اہم حصہ بنیادی ڈھانچے کے متعدد منصوبوں پر مبنی تھا جس کو غیر ملکی قرضوں کے ذریعہ مالی اعانت فراہم کی گئی تھی۔ لیکن جب لوگوں نے ترقی کے بہت سے منصوبوں پر لاپرواہی کے خلاف احتجاج کیا، بالخصوص 2013 میں وسطی استنبول میں ‘ایک منصوبہ بند شہری ترقی’ کے منصوبے سے بے اعتنائی برتنے کے خلاف غزہ پارک میں مہینوں تک جاری رہنے والے احتجاج کا جواب اردوغان نے پرتشدد کریک ڈاؤن کے ساتھ دیا۔
اردوغان نے آئین کو بدلتے ہوئے پارلیمانی نظام کو صدارتی نظام سے بدل دیا جہاں کل اختیارات صدر کے پاس ہیں۔ 2016 میں فوج کے کچھ حصوں کی جانب سے بغاوت کی کوشش کے بعد مطلق العنانیت کی جانب پیش رفت میں تیزی آئی۔ اردوغان نے ایمرجینسی نافذ کرتے ہوئے سکیورٹی سروسز اور سول سروس اختلافی آوازوں کی مکمل تطہیر کا آغاز کیا اور یہ ایمرجنسی 2 سال بعد کے انتخابات میں بھی جاری رہی۔
اس وقت سے انہوں نے گزشتہ ایک دہائی کا زیادہ تر حصہ مخالفین کو قید کرنے، میڈیا کو دبانے اور منتخب عہدیداروں اور یونیورسٹی کے پروفیسروں کو تنقید کا نشانہ بنانے میں گزارا۔ اب کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں جیلوں میں صحافیوں کی تعداد کے اعتبار سے ترکی اول نمبر پر ہے۔ سابق کرد رہنما سیلاہتین ڈیمیرتاس ‘دہشت گردی کی حمایت’ کے الزام میں سات سال سے جیل میں ہیں اور حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے استنبول کے میئر امام اوغلو کو دسمبر میں ایک عدالت کی جانب سے انتخابی عہدیداروں کی “توہین” کرنے کے الزام میں سزا سنائے جانے کے بعد سیاست عمل میں شرکت کرنے سے پابندی کا سامنا ہے۔
حکومتی کرپشن میں اضافہ ہوا ہے اور ترکی اردوغان کی قیادت میں بدعنوانی کی سیڑھی پر ایک مزید آگے بڑھ گیا ہے۔
لیکن جب سے کورونا وبا کے مرض میں گراوٹ آئی ہے، اردوغان کے لئے حالات بدتر ہو گئے ہیں۔ ان کی انتخابی حمایت (بنیادی طور پر مذہبی عقائد رکھنے والے دیہی رائے دہندگان پر مبنی) میں کمی آئی ہے – پہلے ہی تمام بڑے شہروں کو حزب اختلاف کی انتظامیہ چلا رہی ہے۔ اب انہیں صدارت کی دوڑ میں بھی ممکنہ شکست کا سامنا ہے۔ ان کی حمایت میں کمی کی بنیادی وجہ ترک معیشت کی حالت ہے جس میں افراط زر سالانہ 50 فیصد کے قریب ہے۔ معاشی ترقی میں ہچکچاہٹ۔ تجارتی خسارے میں اضافہ کرنسی کی قدر میں کمی اور غیر ملکی قرضے ریکارڈ سطح پر ہیں۔
فروری میں جنوبی ترکی میں آنے والے خوفناک زلزلے کے نتیجے میں 50 ہزار سے زائد افراد ہلاک اور 30 لاکھ سے زائد بے گھر ہو گئے تھے۔ اس سانحے سے نمٹنے کے لئے اردوغان کی طرف سے اپنایا گیا طریقہ کار شدید تنقید کی زد میں رہا۔ اس کے ساتھ ہی اردوغان کے زیر سایہ بڑھتی ہوئی افراط زر نے ہر گھروندے کو نقصان پہنچایا ہے۔ گزشتہ 18 ماہ کے دوران دارالحکومت انقرہ میں ایک کلو پیاز، ترکی کے کھانوں کے لیے اہم، کی قیمت میں تقریبا پانچ گنا اضافہ ہوا ہے۔
اردوغان نے افراط زر پر قابو پانے کے لئے قدامت پسند سرمایہ دارانہ پالیسیوں یعنی شرح سود میں اضافہ کرنے پر عمل کرنے سے انکار کیا، جیسا کہ عالمی سطح پر زیادہ تر مرکزی بینکوں نے کیا۔ شرح سود کو “تمام برائیوں کی ماں اور باپ” قرار دیتے ہوئے انہوں نے مرکزی بینک کے گورنروں کو برطرف کر دیا اگر کسی نے بھی روایتی افراط زر کی پالیسی یعنی شرح میں اضافہ کیا۔ لیکن شرح سود افراط زر سے بہت کم رہنے کی وجہ سے لیرا کرنسی ڈالر اور یورو کے مقابلے میں تیزی سے کمزور ہوئی اور اس طرح صنعت کے لئے غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی کی لاگت میں اضافہ ہوا۔
حکومت نے 2021 میں خصوصی بچت اکاؤنٹس متعارف کرائے تھے تاکہ لیرا کمزور ہونے کی صورت میں جمع کنندگان کو ادائیگی کی جا سکے۔ ان اکاؤنٹس میں اب 102 ارب ڈالر کے مساوی رقم موجود ہے۔ لہٰذا وہ حکومتی بجٹ کے لیے ایک بڑی ذمہ داری ہیں. اس ذمہ داری کی وجہ سے مرکزی بینک کو سرکاری اخراجات کے لیے رقم ‘پرنٹ’ کرنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے، جس سے لیرا پر دباؤ میں مزید اضافہ ہوتا جاتا ہے۔
غیر ملکی کرنسی میں ادا کی جانے والی درآمدات میں اضافہ کی وجہ سے تجارتی خسارہ تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ جی ڈی پی کے مقابلے میں مجموعی کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ اردوغان کے دور میں دوگنا سے زیادہ بھی ہو گیا ہے۔
اور غیر ملکی لین دین کرنے کے لئے لیرا کے بجائے استعمال کرنے کے لئے قیاس آرائیوں والے سونے کی درآمدات (اب تمام درآمدات کا ایک تہائی) میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہوا ہے۔ اردگان نے لوگوں سے کہا ہے کہ وہ ڈالر یا یورو کے استعمال سے بچنے کے لئے سونا خریدیں: “جو لوگ ڈالر یا یورو کرنسی کو اپنے بستر کے نیچے رکھتے ہیں وہ آئیں اور انہیں لیرا یا سونے میں تبدیل کریں”۔ یہ درآمدات روس سے ہوتی ہیں جو اپنی جنگی کوششوں اور پابندیوں سے بچنے کے لئے سونا فروخت کر رہا ہے۔
اس کے باوجود ترکی کے پاس اپنے قرضوں کی ادائیگی کے لیے غیر ملکی کرنسی ختم ہو چکی ہے اور وہ متحدہ عرب امارات جیسے دوست خلیجی ممالک کے ساتھ معاہدوں (عملی طور پر قلیل مدتی قرضوں) کا سہارا لے رہا ہے، جن سے ترکی نے لیرا کے بدلے اماراتی درہم ادھار لیے ہیں۔ لیکن انتخابات شروع ہوتے ہی ترکی کے خالص زرمبادلہ کے ذخائر منفی 67 ارب ڈالر رہ گئے ہیں۔
غیر ملکی سرمایہ کار طاعون کی طرح ترکی سے گریز کر رہے ہیں۔ ترک حکومت کے بانڈز کی غیر ملکی ملکیت مئی 2013 میں 25 فیصد سے کم ہو کر 2023 میں 1 فیصد سے بھی کم پر آ گئی ہے۔ اسی طرح سرمایہ کاروں نے ترکی کی سٹاک مارکیٹ سے 7 ارب ڈالر سے زائد رقم نکال لی ہے۔ ترکی کے بینک اور کارپوریشنز اب شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ ترکی کی غیر مالیاتی کمپنیوں کی غیر ملکی کرنسی کی ذمہ داریاں اب ان کے غیر ملکی زرمبادلہ کے اثاثوں سے 200 ارب ڈالر سے زیادہ ہو چکی ہیں۔
ترکی کی معیشت یہ ظاہر کرتی ہے کہ معاشی اور مانیٹری پالیسی کو بڑی ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ معیشتوں کے الٹ سمت میں چلانے کی کوشش اس وقت تک کارگر ثابت نہیں ہوسکتی جب تک کہ سرمائے کے کنٹرول کو متعارف نہیں کروایا جاتا اور گھریلو سرمایہ کاری کو پیداواری شعبوں کی طرف ایک منصوبے کے ذریعے موڑ نہیں دیا جاتا ۔ اس کے بجائے اردوغان ایک کامیاب سرمایہ دارانہ معیشت بنانے کی کوشش کر رہے ہیں جو مکمل طور پر بین الاقوامی سرمائے کے بہاؤ کے سامنے ہو اور رئیل اسٹیٹ اور دیگر غیر پیداواری شعبوں میں کریڈٹ ایندھن سے چلنے والی سرمایہ کاری پر مبنی ہو۔
معاشی کامیابی کا ایک اہم پیمانہ مزدوروں کی پیداواری صلاحیت میں اضافہ ہے۔ یہ جنوب کی طرف بڑھ رہا ہے. اس کی وجہ یہ ہے کہ فی مزدور پیداواری شعبوں میں سرمایہ کاری کی بڑھوتری تیزی سے سست ہو رہی ہے۔ اردگان کے دور حکومت کی پہلی دہائی میں سرمایہ کاری اور پیداواری صلاحیت دونوں میں دو ہندسوں میں اضافہ ہوا۔ لیکن 2009 کی عظیم کساد بازاری کے خاتمے کے بعد سے، دوسری دہائی میں ترقی اوسطا 3 فیصد سالانہ سے بھی کم رہی ہے۔
اور اس سست سرمایہ کاری اور پیداواری نمو کے پیچھے عظیم کساد بازاری کے خاتمے کے بعد سے ترک سرمائے کے منافع میں تیزی ترین کمی ہے۔
اگر حزب اختلاف جیت جاتی ہے تو وہ بھی اردوغان کی مخدوش معیشت کا کوئی سوشلسٹ متبادل پیش نہیں کر رہے۔ حزب اختلاف کے رہنما کلیچدار اوغلو نے گزشتہ ماہ فنانشل ٹائمز کو بتایا تھا کہ ان کی ترجیحات میں سے ایک ترجیح آزاد مرکزی بینک قائم کرنا ہے تاکہ وہ حکومتی مداخلت کے بغیر شرح سود کی پالیسی طے کرسکے! اس کا مطلب یہ ہوگا کہ شرح سود میں تیزی سے اضافہ ہوگا کیونکہ روایتی پالیسی اپنائی جائے گی اور شاید بہت زیادہ مالی کفایت شعاری ہوگی۔ حزب اختلاف کے کچھ حامی دلیل دیتے ہیں کہ “افراط زر کو ختم کرنے کے لئے شرح سود کو 30 فیصد تک بڑھانے کی ضرورت ہوسکتی ہے۔ اس سے غیر ملکی سرمایہ کاری زیادہ سے زیادہ ہو گی، معاشی ترقی کو فروغ ملے گا جبکہ لیرا پر دباؤ کم ہوگا”۔ لیکن اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ شرح سود میں اضافہ افراط زر کو کم کرنے کے لئے کام کرے گا – جس کے نتیجے میں کساد بازاری کا زیادہ امکان ہے۔
کلیچدار اوغلو کی قیادت میں یورپی یونین کی طرف واپسی ہوگی اور یوکرین میں نیٹو کی حمایت کی جائے گی۔ اگر وہ صدارتی انتخاب جیت جاتے ہیں تو ترکی اور یورپی یونین کے تعلقات کی بحالی ایجنڈے میں سرفہرست ہوگی۔ یہاں حزب اختلاف کی پالیسی واضح ہو جاتی ہے: قدامت پسند معاشی پالیسی اور غیر ملکی سرمائے پر انحصار۔
لیکن کیا غیر ملکی سرمایہ ڈلیور کرے گا؟ ترکی کو بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ حالیہ دو زلزلوں سے متاثرہ علاقوں میں نئے گھروں کی تعمیر پر 50 بلین امریکی ڈالر کی لاگت اس ضرورت کی صرف صرف ایک مثال ہے۔ وہاں بہت بڑی غربت اور عدم مساوات ہے۔ ترکی کے شماریاتی ادارے کے سالانہ سروے کے مطابق کورونا وبا کے بعد سے ترکی میں غربت کی شرح آبادی کے 21.3 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ شدید مادی محرومی کی شرح (جس کی تعریف ایسے لوگوں کی شرح کے طور پر کی جاتی ہے جو کم از کم چار اہم ضروریات کو برداشت کرنے سے قاصر ہیں) 16.6٪ ہے۔ 2022 کے نتائج کے مطابق، 33.6 فیصد غیر ادارہ جاتی آبادی کو تنہائی اور گھروں میں چھت لیک ہونے، گیلی دیواروں / فرش / بنیادوں اور کھڑکیوں کے فریم / فرش میں سڑن وغیرہ کی وجہ سے گرمی کے مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
سروے کے مطابق اقتصادی عدم مساوات کا اندازہ لگانے کے لیے استعمال کیے جانے والے اعداد و شمار کے مطابق 2020 میں ترکی 0.015 پوائنٹس کی کمی کے ساتھ 0.41 پوائنٹس تک پہنچ گیا جو برازیل، میکسیکو اور جنوبی افریقہ کے برابر ہے۔ یہ اردوغان کے دور حکومت کے گیارہ سالوں میں امیر اور غریب کے درمیان سب سے بڑا فرق ہے۔ امیر ترین 20 فیصد آبادی اور غریب ترین 20 فیصد افراد کی آمدنی کا تناسب گزشتہ سال کے 7.4 سے بڑھ کر 2020 میں 8 ہو گیا۔ امیر ترین 20 فیصد افراد کو کل آمدنی کا 47.5 فیصد ملا جبکہ غریب ترین افراد کو صرف 6 فیصد آمدنی ملی۔ ڈیسیلز کے لحاظ سے، آبادی کے ٹاپ 10٪ نے کل آمدنی کا 32.5٪ حاصل کیا جبکہ نچلے درجے کے افراد کا حصہ 2.2٪ تھا، جس کا تناسب ایک سال میں 13 سے بڑھ کر 14.6 ہوگیا۔
انتخابات کے نتائج بھی یقینی نہیں ہیں۔ یہاں تک کہ اگر کلیچدار اوغلو کو پہلے مرحلے میں 50٪ ووٹ مل بھی جاتے اور وہ جیت جاتے ہیں تو اس بات کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ اردوغان نتائج کو قبول کریں گے. یہ صرف ٹرمپ نے ہی 2020 کے امریکی انتخابات میں نہیں کیا تھا۔ وہ نتائج کو روکنے اور نئے ووٹ کا مطالبہ کرنے کے طریقے تلاش کرسکتے ہیں۔ یہ سب ملک کو ایک بڑے بحران میں دھکیل سکتا ہے۔ اگر کوئی بھی 50 فیصد حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوتا تو مئی میں دوسرا دور ہو گا۔