Share this
تحریر : الطاف بشارت
۔ 2008 کی کساد بازاری اور نتیجتاً طویل مندی سے نکلنے کی جستجو میں لیے جانے والے معاشی فیصلے اور پالیسیاں سرمایہ داری کو بحرانوں کی ایسی دلدل میں دھکیل چکے ہیں جہاں سے سرمایہ داری کے اندر رہتے ہوئے ہی نکلنا ناممکنات میں سے ہے سوائے اس کے کہ دنیا کو ایک بڑی جنگ میں جھونک دیا جائے۔ افراط زر اور بحران، ماحولیاتی تباہی اور وبائیں، جنگ اور عالمی تقسیم، حقیقی آمدن میں گراوٹ، غربت میں اضافے کیساتھ بڑھتی ہوئی عدم مساوات، پیداوار کو فروغ دینے کیلیے بے انتہا سرمایہ کاری اور دنیا کو اپنی لپیٹ میں لینے والی ماحولیاتی تباہی سے صرف نظری، بے یقینی کی مختلف کیفیات پرت در پرت پورے سماج کو اپنے حصار میں لیے ہوئے ہے۔ قبل از پہلی عالمی جنگ سے اب تک کی جدید تاریخ میں دنیا اسقدر مایوس کن کبھی بھی نہ تھی۔
سرمایہ دارانہ ارتکاز اور نمو میں فطرت اور انسان کا بدترین استحصال جاری ہے۔ دنیا دائیں بازو کی قوم پرستی کے نرغے میں ہے۔ پرانے عالمی تعلقات ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں اور نئے تعلقات زیر تعمیرہیں اس درمیان سماج آتش فشاں بنا ہوا ہے۔ تیزی سے بڑھتی بنیاد پرستی، سرمایہ دارانہ بربریت اور جنگی جنون سماج کے ہر گوشے میں سرائیت کر چکا ہے۔ منافع میں گراوٹ اور منافع کے حصول کیلیے سرمایہ دارانہ پاگل پن عروج پر پہنچ چکا ہے۔ بحرانوں سے نکلنے کے لیے انسانی خون پر بارود کی ترقی کرتی ہوئی منافع بخش (غلیظ) صنعت کا فروغ اور سامراج رقابتوں میں ایک دوسرے کو سبق سکھانے کیلیے غراتی ہوئی وحشی ریاستیں، ان ریاستوں کے حکمران اور ان حکمرانوں کے آقا [ذرائع پیداوار کے مالکان] منافع کی دوڑ میں بھوک، ننگ، انپڑھتا، جہالت، بے روزگاری، فٹ پاتھوں پر بڑھتی ہوئی آبادی اور استحصال کے پیغمبروں کا فریضہ سرانجام دینے پر کار بند ہیں۔
طرز پیداوارکی حیثیت میں سرمایہ داری فی الواقعی بدترین اقتصادی بحران کے عہد میں داخل ہو چکی ہے۔ دائیں بازو کے تمام معاشی ماہرین اپنے ہی نظام اور اس کی زندگی کے بارے میں مشکوک اس کو مصنوعی سانسیں بخشنے کی کوششوں میں اس کے مزید بڑے اور تباہ کن بحرانوں کا راستہ ہموار کر رہے ہیں۔ ریاستیں دیوالیہ ہوتی جا رہی ہیں اور اس نظام کو انسانی زندگیوں کی قربانیوں پر بحال رکھنے کی تمام کوششیں سماجی انتشارکو بڑھاوا دے رہی ہیں۔ انسانیت کی ایک بڑی اکثریت کو خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور کیا جا رہا ہے جبکہ ایک اور بڑا معاشی بحران سرمایہ داروں کے سر پر منڈلا رہا ہے۔
بطور سماجی تنظیم سرمایہ داری کی تنزلی شرمناک حد تک گراوٹ کا شکار ہو چکی ہے، خاندانی رشتوں کی ٹوٹ پھوٹ اپنی تمام حدود پھلانگ چکی ہے، بوسیدہ سماجی ڈھانچہ گرنے سے قبل ایک جھونکے کا منتظر ہوا میں جھول رہا ہے۔ سماجی خدمات کے شعبے مکمل طور پر ناکارہ کر دئیے گئے ہیں اور عوامی خدمات دم توڑ چکی ہیں۔ آزاد منڈی کی معیشت پورے سماج کو نگل چکی ہے، لسانی، قبیلائی، علاقائی، ریاستی اور خاندانی تعصبات کا بدترین دور بچی کھچی انسانی تہذیب اور ثقافت کو نگل رہا ہے اور سرمایہ دارانہ تہذیب یعنی تصادموں کی تہذیب کے گھٹا ٹوپ اندھیرے سماجی زندگی کو اپنے حصار میں لیے ہوئے ہیں۔
سرمایہ دارانہ نظام بحیثیت سماجی تنظیم اور معاشی ڈھانچے کے مکمل طور پر ناکام ہو چکا ہے اور مارکس کے بیان کردہ وراثتی بحران پہ در پہ سرمایہ داری پر وارد ہو رہے ہیں۔
عدم مساوات تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے۔ انفرادی دولت کے معاملے میں امیر ترین 10 فیصد بالغ افراد 80 فیصد دولت کے مالک ہیں جبکہ غریب ترین 50 فیصد کے پاس فقط 5 فیصد دولت ہے۔ دنیا کے ایک فیصد امیر ترین 45 فیصد دولت کے مالک ہیں جبکہ 3 بلین لوگوں کے پاس کوئی بھی دولت موجود نہیں۔ جبکہ آمدن کی عدم مساوات بھی بدترین سطح پر ہے۔ ورلڈ انویسٹمنٹ رپورٹ کے مطابق دنیا کے 10 فیصد امیر ترین افراد مجموعی آمدن کا 52 فیصد حصہ لیتے ہیں جبکہ 50 فیصد غریب ترین لوگ آمدن کا صرف 8 فیصد حاصل کر پاتے ہیں۔ گزشتہ چالیس سالوں میں ممالک امیر تر ہوئے ہیں جبکہ ان کی حکومتیں غریب ترین۔ وبا اور ماحولیاتی تباہی دونوں عدم مساوات کی اس دلدل کو مزیر گہرا کرتے جا رہے ہیں۔
زائد پیداوار کے بحران نے منفعت بخشی کے بحران کو جنم دیا تو سرمایہ دارانہ سماج کی انتشاری فطرت نے پورے سماج کو انارکی میں جھونک دیا، اکثریت کی زندگی لعنت بن گئی اور اقلیت کے منافعوں میں اضافہ تیز ترین ہو گیا۔ اسی طرح سرمایہ دارانہ استحصالی فطرت نے اس سیارے کی زندگی کو خطرے سے دوچار کر دیا ہے۔ حکمران طبقے کے نقطہ نظر سے ضرورت اس امر کی تھی کہ ان بحرانوں سے نکلنے کے لیے عالمی حکومتوں کے تعاون اور اشتراک کو ممکن بنایا جائے لیکن سرمایہ دارانہ تہذیب کے زیر اثر عسکری و اقتصادی دونوں محاذوں پر ممالک کے تنازعات بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔
معاشی بحران اور مندی، حقیقی آمدن میں گراوٹ، عوامی سیکٹر کی نجکاری، روزگار کی منڈی کی تشکیل نو، سرمائے کی حدود پر لگی قدغن کے خاتمہ، ترسیل کی قیمتوں میں کمی، ذرائع ابلاغ کی ڈرامائی تبدیلی اور ذرائع پیداوار کی جدت نے باہم مل کر سرمایہ داروں کو پیداوار سستی ترین معیشتوں کی طرف لے جانے کا نایاب موقع فراہم کیا- سستے، معیاری اور لچکدار مزدور معمول بن گئے بے روزگاری عروج پر پہچ گئی اور دائیں بازو کیساتھ ساتھ سوشل ڈیموکریسی اور بائیں بازو کی بڑی عوامی پارٹیوں نے بھی غریب ترین اکثریت کی زندگیوں کو منجمند کرتے ہوئے امیر کو امیر تر کرنے والے ان نئے سرمایہ دارانہ رجحانات کو قبول کرنا شروع کر دیا-
نظریات اور اصول دونوں رائج الوقت سیاست گم ہو چکے ہیں۔ جان مینارڈ کینز کے نظریات بڑی سرمایہ دارانہ معیشتوں کی مزدور تحریک اور ٹریڈ یونین رہنماوں کے معاشی نظریات اور پالیسی تجاویز پر حاوی نظر آتے ہیں جن کے اثرات چھوٹی معیشتوں کے رہنماوں اور عوام پر مرتب ہو رہے ہیں۔ کیونکہ کینز کو سرمایہ دارانہ ‘آزاد منڈی’ کی معیشت اور انقلابی مارکسی معاشیات کے درمیان ایک تیسرے راستے کے طور پر دیکھا جاتا ہے جو انقلاب کے راستے کی نسبت بہت زیادہ سہل اور ان رہنماوں کیلیے سود مند ہے۔ وہ سرمایہ دارانہ نظام کی فطری لالچ، استحصال، عدم مساوات، پر انتشار سماجی و معاشی زندگی، بے روزگاری، ماحولیاتی تباہی اور جنگ کے باوجود اسی نظام میں بہتری کے خواہشمند ہیں۔ سوشل ڈیموکریٹک پارٹیوں اور بائیں بازو کی بڑی جماعتوں کی طرف سے سرمایہ دارانہ نظریات کی قبولی، غیر ضروری بزدلی، سماج کو بدلنے والے نظریات سے بے اعتنائی اور مروجہ نظام کے سامنے سر جھکاتے ہوئے سرمایہ داری کو ہی حتمی نظام مان لیاگیا ہے۔
سویت یونین کے انہدام اور سوشل ڈیموکریسی کے اصلاحات پسندانہ ڈھانچے [یعنی فلاحی ریاستوں] کے خاتمے نے اس عمومی ابہام کو جنم دیا کہ سرمایہ دارانہ نظام کا کوئی قابل عمل متبادل موجود نہیں۔ لوگوں کی اکثریت اور بائیں بازو کہ عوامی جماعتوں کے رہنما اس بات کو قبول کر چکے ہیں کہ انسانیت کی بھلائی، تکمیلِ ضروریاتِ زندگی، بلند تہذیب اور ثقافت کا حامل ایسا اشتراکی معاشرہ قائم کرنا ممکن نہیں جہاں اشیاءکی فراوانی ہو، عدم مساوات کا خاتمہ ہو جائے، طبقاتی تفاوت باقی نہ رہے اور مجموعی انسانیت برابری کی بنیاد پر ترقی کی منازل کی طرف بڑھ سکے۔ اس ابہام نے ان کو جدوجہد کے راستے سے فرار ہوتے ہوئے کینز کے درمیانی راستے کو قبول کرنے پر مائل کیا۔ کینز کی دلیل ہے کہ معقول پالیسی اقدامات کے ذریعے سرمایہ داری کا نظم و نسق بہتر کرتے ہوئے اسے اس قابل بنایا جا سکتا ہے کہ وہ سماجی ڈھانچے میں خلل ڈالے بغیر بہت سے لوگوں کی ضروریات پوری کر سکتا ہے۔
‘آزاد منڈی’ کی معیشت کا دعویٰ ہے کہ خوشحالی تب ہی حاصل ہو سکتی ہے جب سرمایہ داروں پر کوئی بھی ماحولیاتی، حفاظت کے یا صحت کے ضابطے لاگو نہ ہوں۔ سرمایہ داروں پر بہت زیادہ ٹیکس لاگو نہ ہوں اور منڈیاں مقابلے کی بنیاد پر مناپلی سے آزاد رہیں بالخصوص محنت کی منڈی میں یعنی ٹریڈ یونین کی مناپلی کا خاتمہ۔ تب ہی سرمایہ دار آزادانہ مقابلے کی بنیاد پر اپنے منافعوں کو زیادہ سے زیادہ کرنے کے قابل ہوں گے اور ایسا کرتے ہوئے وہ محنت کی پیداوار کو بڑھانے کے لیے جدید ٹیکنالوجی میں اضافے کریں گے مزید محنت کشوں کو روزگار ملے گا اور ان کی اجرتیں بھی بڑھیں گی۔ بحران ختم ہوں گے یوں انت میں سب ہی وجیتا ہوں گے۔
کینشین معیشت کا کہنا ہے آزاد منڈی کی سرمایہ داری کام نہیں کرتی کیونکہ منڈی کی معیشت میں فالٹ لائنز ہیں جو ‘مضبوط طلب’ کی دائمی کمی کو جنم دیتی ہیں۔ منافع میں اضافے کیلیے اجرتوں کو روکے رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ سرمایہ دار اپنی تمام پیداوار فروخت نہیں کر سکتے اور وقتاً فوقتاً مزدوروں کو نکالنے پر مجبور رہتے ہیں جس سے بے روزگاری جنم لیتی ہے۔ حکومتوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ معیشت میں مداخلت کریں اور اجرتوں کی سطح میں اضافہ کریں یا پھر مجموعی طلب کے خلاءکو پر کرنے کیلیے سرکاری اخراجات میں اضافہ کریں۔اس طرح سے سرمایہ داروں کے لیے اپنا مال بیچنے اور منافع کمانے کے لیے کافی مانگ پیدا ہو جائے گی۔ لہٰذا منڈی کی معیشت کا منصفانہ میکرو مینجمنٹ سب کے لیے کام کر سکتا ہے۔
مارکسسٹ نقطہ کہتا ہے کہ مانگ کی کمی، کم اجرتوں یا آمدن کی تقسیم میں عدم مساوات کا سوال نہیں بلکہ طرز پیداوار کے نظام منافع میں مسئلہ ہے۔ سرمایہ دارانہ طرز پیداوار اور اس کے بحرانوں کا راز اجناس کو منافع کے حصول کیلیے منڈی میں بیچنے کی پیداواری فطرت میں پنہاں ہے۔ یہ بحران اس وقت تک ختم نہیں ہو سکتے جب تک طرز پیداوار کو منافع کے بجائے ضروریات کی طرف منتقل نہیں کر دیا جاتا۔
سوشل ڈیموکریٹک اور بائیں بازور کی بڑی پارٹیوں کے لیڈران کی طرف سے کینز کے نظریات کی قبولیت نے بائیں بازو کے سیاسی افق پر بہت بڑا خلا پیدا کر دیا ہے اس کو پر کرنے کے لیے چھوٹے چھوٹے گروہ لینن اور ٹراٹسکی کے طریقہ کار پر عمل پہرا ہونے کے بلند و بانگ دعوں کیساتھ ایک دوسرے سے مقابلے بازی میں مصروف ہیں۔ ان کا دعوٰی ہے کہ عوام کی روایتوں کی عوام سے بے وفائی کے باعث عوام کیلیے ایک نئی انقلابی پارٹی کی تعمیر کی ضرورت ہے جو ان کے حالات زندگی بدلنے کیلیے ان کی سیاسی تحریک کا مغز بنے اور ان کی قیادت کرے، اور ان کی قیادت فقط وہی “گروہ” ہو۔ ایسے گروہی رجحانات لینن یا ٹراٹسکی کے کام کے کامیاب طریقہ کار اور اس وقت کے حالات کے تقاضوں، سماجی کیفت اور سیاسی حالات سے نظریں چراتے ہوئے حفظ کی ہوئی وہی حکمت عملی حدیثوں کی طرح بیان کرتے ہیں جو ان کی بات کو درست ثابت کرتی ہو۔ ان کی شدید ترین خواہش ہے کہ وہ پارٹی کا اعلان کریں، لوگ اس پارٹی میں شامل ہوں ان کو لیڈر تسلیم کریں اور انقلاب کرنے کے لیے آگے بڑھیں اس سے ہٹ کر کوئی بھی عمل، کوئی بھی نقطہ نظر کوئی بھی اختلاف رائے غداری ہو۔ ان کی بچگانہ خواہش کا احترام تو بنتا ہے۔
اس تناظر میں یہ گروہ اپنی کٹر سوچ اور بنیاد پرستانہ جھکاوکے ساتھ عوام کی تمام چھوٹی بڑی تنظیموں سے مقابلے بازی کے نام پر ان کے لیڈران کو کم تر ثابت کرنے کے لیے ہر جائز و ناجائز حربہ استعمال کرتے ہیں۔ تاہم ان کا اولین فریضہ اپنے جیسے دیگر چھوٹے گروہوں اور تنظیموں کو شکست دینا ہوتا ہے۔ ایسے گروہ اپنے مقاصد کے لیے جس بھی عوامی تحریک یا تنظیم میں شامل ہوتے ہیں اس کا دماغ بننے کیلیے ان داتا بن کر خود کو اس پر مسلط کرنے کی کوششوں میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ ان کی یہ سخت گیر اور افسر شاہانہ ذہنیت نہ صرف عوام سے بیگانہ ہونے کا سبب بنتی ہے بلکہ بائیں بازو کے لیے ہنسی کا سامان بھی بنتی ہے۔ اس فرقہ وارانہ ذہنیت نے صرف ان کو غیر موثر نہیں بنایا بلکہ مجموعی مزدور تحریک کو نقصان پہنچایا ہے۔ یہی وہی ذہنیت اور مزاج ہے جس کے خلاف ٹراٹسکی نے جدوجہد کی اور لینن کو بائیں بازو کے کمیونزم کو طفلانہ کہنے پر مجبور کیا۔
ایسے گروہ انقلابی پارٹی بنانے کیلیے لوگوں کو اپنی پارٹی میں جیتنے کے نام پر عوامی تنظیموں کے لیے امربیل کا کردار ادا کرتی ہیں۔ اپنی کٹر سوچوں پر اپنے گروہ کو یک سرا بنانے اور بھرتی کئے گئے سپاہیوں کو ناک کی سیدھ میں رکھنے کیلیے اختلاف رائے اور جمہوری اقدار کا قتل کرتے ہیں اور تطہیر کے نام پر تقسیم کا شکار ہو جاتے ہیں اور پھر تقسیم کو عظیم انقلابی صفت بتاتے ہوئے نہ صرف تقسیم کے حق میں دلائل دیتے ہیں بلکہ اس کی تبلیغ شروع کردیتے ہیں۔ ان کی یہ تقسیم اور تبلیغ نہ صرف ان کے ذہنی خبط کی عکاس ہے بلکہ مزدور تحریک کی تقسیم، شکست خوردگی اور بائیں بازو کے لیے عوام کی مایوسی میں اور اضافے کا موجب بنتی ہے۔ کیا اس فرقہ پرورانہ ذہنیت کے ساتھ دنیا بھر کے محنت کشوں کی ایکتا ممکن ہے؟
کچھ بائیں بازو کے دانشور مکمل آزادانہ طور پر سیاسی تحریک سے مکمل لاتعلقی کیساتھ سوشلزم کی تبلیغ کا فریضہ سر انجام دینا چاہتے ہیں، ہم ان کے پیشے کی قدر کرتے ہیں لیکن مارکس اور اینگلز تو دو صدیاں قبل تبلیغ کو رد کرتے ہوئے اس کی ذمہ داریاں خیالی سوشلسٹوں کو سونپتے ہوئے دوسری انٹرنیشنل کی بنیادیں رکھ کر اس نظام کو بدلنے کیلیے بڑے پیمانے پر عوام کو منظم کرنے کے کام میں جٹ گئے تھے۔
مارکس اور اینگلز نے اس طرح کے گروہوں کو بہت قریب سے دیکھا اور ان کو رد کرتے ہوئے عوامی تنظیموں کی تعمیر کے لیے راستے ہموار کئے۔ چونکہ سوشلزم کا حتمی مقصد عوام کی اکثریت کے حالات زندگی بدلنے ، استحصال کے خاتمے اور اس سیارے کو سرمائے کے بے رحم نرغے سے آزاد کرتے ہوئے ایک نئے سماج کی بنیاد رکھنا ہے۔ اس سماج کو بدلنے کے عمل میں جب تک عوام شریک نہیں ہوتی اس وقت تک سماج کا بدلنا ناممکنات میں ہے۔ تاریخ سے تمام مارکسی اساتذہ نے یہ نتیجہ احذ کیا اور تاریخ ہمیں بھی یہی سیکھا رہی ہے کہ جب واقعات عوام کو جدوجہد میں تو لوگ چھوٹے چھوٹے گروہوں کی نسبت بڑی تحریکوں میں اپنا اظہار کرتے ہیں جہاں سے انہیں امید ہوتی ہے کہ ان کی طاقت یہ ممکن بنا سکتی ہے۔ اگرچہ محنت کشوں کو اپنی روایتوں سے بہت مایوسی ملتی ہے لیکن جب بھی بحران کا وقت ہوتا ہے تو وہ پھر اپنی روایتی تنظیموں کی طرف دیکھتے ہیں۔ اگر وہ تنظیمیں ان کو اپنے وعدے پورے کرنے کے قابل نظر نہ آئیں، اپنائیت کے بجائے پتھر کی دیوار نظر آئیں تو وہ آسانی سے واپس مایوسی اور بیگانگی میں لوٹ جاتے ہیں۔
ان فرقہ پرور گروہوں کا دعویٰ ہے کہ روایتیں تو عوام ہی بناتی عوام ہی ختم کرتی ہے۔ یہ دعویٰ درست ہے لیکن وہ حالات کونسے ہوتے ہیں یہ اس سے نظریں چراتے ہیں۔ صرف انتہائی غیر معمولی حالات میں جب محنت کشوں کی اکثریت اپنی روایتی تنظیموں کی طرف سے غداری محسوس کرتی ہے تو وہ اپنا رخ کسی اور متبادل کی طرف موڑ دیتے ہیں لیکن اس کی صرف چند ایک مثالیں ہیں اور بعد میں ان مثالوں کی بھی بدترین مثالیں بنتی نظر آتی ہیں، زیادہ تر حالات میں محنت کش بار بار اور ہر بار اپنی روایتوں کی طرف رخ کرتے ہیں۔ کیونکہ ان روایتوں کی موجودہ قیادت کے نظریات جو بھی ہوں لیکن طبقاتی جدوجہد کی تاریخ میں یہ سرمایہ داری کے خلاف اور ان کے حق میں لڑنے کے سفر میں بنائی جانے والی ایسی تنظیم ہیں جن میں ان کی کئی نسلوں کی محنت اور قربانیاں شامل ہیں ۔
یہ ایک الگ پہلو ہے کہ دہائیوں کی نظریاتی اور تنظیمی تنزلی نے ان کو ان کی منزل کے راستے سے دور کر دیا ہے اور وہ اپنا مقصد بھولتی جا رہی ہیں مگر یہ حقیقت اپنی جگہ قائم ہے کہ محنت کشوں کی روایتی تنظیموں ( سوشل ڈیموکریسی، ٹریڈ یونین، بائیں بازو کی عوامی پارٹیاں اور دیگر تمام روایتی تنظیمیں) کی بنیاد بین الاقوامی یکجہتی اور جڑت کے ذریعے سرمایہ داری کو سوشلسٹ سماج سے بدلنے کے لیے رکھی گئی تھی۔ ٹریڈ یونین اور سوشل ڈیموکریسی کی تعمیر کا بنیاد اصول “اتحاد ایک طاقت اور تقسیم شکست ہے” کارفرما تھا۔ یہ فرقہ پرور گروہ طاقت کو “نادانی” اور شکست کو “انقلابی صفت” گردانتے ہیں ۔ایسے شکست خوردہ گروہ نہ تو عوامی بنیادیں حاصل کرنے کے قابل ہوتے ہیں اور نہ ہی بکھری ہوئی کمزور مزدور تحریک کو طاقت کیساتھ کھڑا کرنے کے قابل ہو سکتے ہیں۔ یہ خود اپنی ذات میں تحلیل ہوتے جا رہے ہیں ۔
ان کی خواہشات کے برعکس مارکس نے کیمونسٹ مینی فسٹو میں برملا اور واضع انداز میں اعلان کیا تھا کہ:
“کیمونسٹ مزدور طبقے کی دیگر پارٹیوں کے خلاف کوئی الگ پارٹی نہیں بناتے
بحیثیت مجموعی پرولتاریہ طبقے کے مفاد کے سوا اور اس سے جدا ان کا کوئی مفاد نہیں
وہ اپنے جداگانہ فرقہ پرور اصول نہیں قائم کرتے جس سے مزدور تحریک کو کوئی حاص شکل دی جا سکے اور کسی خاص سانچے میں ڈھالا جا سکے۔”
مجھے لگتا ہے انہوں نے مارکس اور اینگلز یا لینن اور ٹراٹسکی کو پڑھا ہی نہیں اور اگر پڑھا ہے تو صرف حفظ کیا ہے اسے سمجھا ہی نہیں ۔ اگر یہ کیمونسٹ مینی فسٹو ہی سمجھ لیتے تویہ کبھی بھی اپنے گھروں پر قبضے کے خوف سے گھر چھوڑ کر نہ بھاگتے۔ نہ ہی محنت کشوں کے گھر سے سامان چوری کر کے اپنی مسجد بنانے کا سوچتے۔ اپنے گھر کا قبضہ چھڑانے کے لیے محنت کشوں کو اپنے ہی گھروں میں منظم کرتے اور ان کی جدوجہد میں ان کا ساتھ دیتے۔ محنت کشوں کی اپنی تنظیموں کے اندر ان کی تربیت اور ان کو منظم کرنے کا اہم ترین فریضہ یقیناً آسان نہیں ہو سکتا اور اس فریضے سے فرار اور اپنے جداگانہ مفادات کے لیے اس فریضے کو چھوڑنے کے ہزاروں حیلے گھڑے جا سکتے ہیں۔ ہر چند ہماری لاکھ خواہش ہو حیلے اصول پر کبھی حاوی نہیں ہو سکتے ۔
محنت کشوں کی منظم اور متحد سیاسی تحریک ہی وہ بنیاد ہو سکتی ہے جو اس سماج کو بدلنے کے قابل ہو سکتی ہے۔ اب تاریخی جدوجہد کے نتیجے میں حاصل ہونے والی جمہوریت اور دیگر حقوق پر حملہ کرنے کیلیے دائیں بازو کے تمام معیشت دان اور دانشور اس شدید بحرانی عہد کو “جمہوری سرمایہ داری” کی ناکامی قرار دے رہے ہیں ۔ اس جمہوری سرمایہ داری کے خاتمے کو تمام بحرانوں کے خاتمے سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔
سرمایہ داری کبھی جمہوری نہیں ہو سکتی سرمایہ داری نے سابقہ طرز پیداوار سے جنم لیا ہے کسی جمہوری عمل کے تحت نہیں بلکہ زمین کی بربادی اور لوگوں کو سرمائے کی غلامی پر مجبور کرتے ہوئے غلامی اور محکومیت کو بنیاد بنا کر پروان چڑھی ہے۔اپنی اصل روح میں جمہوریت اور دیگر حاصل شدہ حقوق کبھی بھی سرمایہ داروں کی مہربانی کا نتیجہ نہیں رہے۔ مارکس نے کہا تھا کہ اب تک کی پوری انسانی تاریخ طبقاتی جدوجہد کی تاریخ ہے اور اس جدوجہد میں منظم ہونے کا حق، رائے دینے کا حق، احتجاج کا حق اور یونین کا حق اور دیگر جتنے بھی حقوق ہیں وہ لاکھوں قربانیاں اور کٹھن جدوجہد کے بعد محنت کشوں نے سرمائے کے ہاتھوں سے چھینے ہیں۔ سوشلسٹوں نے نہ صرف ان حقوق کا دفاع کرنا ہے بلکہ حقیقی انسانی سماج کے قیام کی جدوجہد کو آگے بڑھانا ہے۔ ہمیں صدیوں پر محیط اس آمریت کا خاتمہ بھی کرنا ہے جو چند ریاستوں نے دیگر تمام ممالک پر مسلط کر رکھی ہے۔ ہمیں ماحولیاتی تباہی اور انسانیت کی بربادی روکنے کے لیے استحصال کے خاتمے کیلیے سرمایہ دارانہ طرز پیداوار کو بدلنے کی جدوجہد کرنی ہے۔
سوشلسٹ سماج کے قیام کی جدوجہد ایک بہت بڑا اور وسیع فریضہ ہے اس فریضے کی تکمیل شکست خوردہ اصولوں کو فرقہ پرور بنیادوں پر ممکن نہیں ہو سکتی۔ سرمایہ داری کے معاشی بحران، سماجی انتشار اور ماحولیاتی تباہی چیخ چیخ کر اعلان کر رہی ہے کہ اگر یہ نظام مزید زندہ رہا تو انسانیت کی اکثریت کیساتھ اس سیارے کی زندگی تباہی کے مشترکہ گھڑے میں گر جائے گی۔
ذرائع پیداوار کی جدت نے جس بے رحمی سے سرمایہ دارانہ معاشرے کے فرسودہ ڈھانچے کو جھنجھوڑتے ہوئے سوشلسٹ معاشرے کے لیے جو حالات پیدا کیے ہیں اور جس طریقے سے یہ نظام ذرائع پیداوار کی ترقی کے راست میں رکاوٹ بن گیا ہے ہمیں ان رکاوٹوں کو توڑنے اور نئے سماج کو حقیقت میں بدلنے کی جدوجہد کرنی ہے۔
اس نظام کو بحیثیت طرز پیداوار و سماجی تنظیم بدلنے کیلیے ایک مضبوط اور بڑی عوامی تحریک کی ضرورت ہے اس تحریک کی تعمیر فرقہ پرورانہ اصول پر ممکن نہیں ہو سکتی بلکہ حقیقی طبقاتی بنیادوں پر عوام کو جیتنے سے ممکن ہو سکتی ہے۔ اس مقصد کے لیے عوام کی ہر اک تنظیم ہر اک پرت میں متحرک ہونے کی ضرورت ہے نہ کہ سخت گیر گروہ بنانے کی۔ اتحاد، اعتماد، اٹل نظریات اور لچکدار حکمت عملی ہی ایسی سیاسی و معاشی تحریک کو جنم دے سکتی ہے جو طبقاتی جدوجہد کی ضرورت اور طبقاتی تاریخ کا خاتمہ کرتے ہوئے ایک نئے سماج کی نئی غیر طبقاتی تاریخ کو انسانی ارتقاءکی تاریخ کے باب میں رقم کر سکے- ایک سوشلسٹ سماج کا قیام ممکن بنا سکے۔