Share this
تحریر : الطاف بشارت
ارتکاز
سرمایہ دارانہ نظام کی بنیادی حرکیات ارتکاز کی حرکیات ہیں جن کے ذریعے سرمایہ دارانہ طرز پیداوار مسلسل پھیلتی رہتی ہے. “ارتکاز ارتکاز! یہی موسیٰ ہے یہی پیغمبر! صنعت اجناس کی پیداوار کو آراستہ کرتی ہے جس کاذخیرہ ہوتا رہتا ہے اس لیے زیادہ سے زیادہ محفوظ کرنا یعنی قدر زائد کے ممکنہ بڑے حصے اور فاضل پیداوار کو از سر نو سرمائے میں تبدیل کرنا. ارتکاز، ارتکاز کے مقصد سے؛ پیداوار پیداوار کے مقصد کی خاطر اس فارمولے کے تحت کلاسیکل معیشت بورژوازی کے تاریخی مقصد کو بیان کرتی ہے”. (داس کیپٹل)
جب سرمایہ اپنے منافع کو زیادہ سے زیادہ ذرائع پیداوار میں خرچ کرتا ہے تو استعمال کی جانے والی قوتِ محنت کے مقابلے میں پیداواری ذرائع کی قدر کی شرح بڑھ جاتی ہے. مارکس اس کو “سرمائے کی نامیاتی ساخت” کہتے ہیں. مارکس کے مطابق سرمایہ دارانہ معیشت کے پھیلاؤ کا یہ اصول ہے کہ سرمائے کی نامیاتی ساخت بڑھنے کی طرف جائے گی اور متغیر سرمائے میں تخفیف یعنی کمی ہو گی. سرمائے کی نامیاتی ساخت میں اضافہ سرمائے کی ترقی نہیں بلکہ مارکس کے الفاظ میں ‘سماجی محنت کی پیداوایت کی بڑھوتری ہے جو ارتکاز کی سب سے طاقتور ترین شکل بن جاتی ہے’
سرمایہ دار زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کیلیے پیداواری ذرائع میں مسلسل اضافے کرتے جاتے ہیں اور انسانی محنت کو کم سے کم کرتے جاتے ہیں تاکہ اجناس کی پیداواری لاگت میں کمی ہو اور منافع کی شرح بلند سے بلند. بڑھتی ہوئی نامیاتی ساخت کام کے اوقاتِ کار کو طویل سے طویل کرتے ہوئے روزگار کے مواقعوں کو کم سے کم کرتی ہے بلکہ پہلے سے موجود روزگارکی تباہی کا بھی سبب بنتی ہے. اور مزدوروں کی ایک فاضل آبادی پیدا کی جاتی رہتی ہے. مارکس اس فاضل آبادی کو ریزرو صنعتی فوج کہتے ہیں. محنت کشوں کی ایسی فوج جو قوتِ محنت بیچنے کے لیے تیار رہتی ہے لیکن سرمایہ دار اسے خریدنے پر تیار نہیں ہوتے. یہ ریزرو فوج نا صرف انتہائی کم داموں پر اپنی قوتِ محنت بیچنے کے لیے مجبوری کی حد تک بے تاب رہتی ہے بلکہ پہلے سے باروزگا مزدوروں کو بے روزگاری کے خوف میں مبتلا رکھتے ہوئے ذرائع پیداوار کے مالکان کو یہ موقع فراہم کرتی ہے کہ وہ کم اجرتوں، طویل اوقات کار اور استحصال کی شدت میں اضافے کو ممکن بنا سکے. مارکس کے نزدیک یہ ریزرو فوج سرمایہ درانہ طرزِ پیداوار کا ناگزیر حصہ ہے. یہ سرمایہ داری کا ایک اور بڑا جرم ہے کہ ایک طرف تو بے پناہ استحصال سے مزدوروں کی آدھی سے زیادہ زندگی نگل لیتا ہے تو دوسری طرف اکثریت کو اپنی زندگی کے اظہار کا موقع بھی فراہم نہیں ہوتا.
اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ زندہ محنت مردہ محنت کے ایک بہت بڑے دھارے پر بیٹھی ہوتی ہے. “یہی وجہ ہے کہ محنت پیداواری عمل میں اس طرح شامل دکھائی نہیں دیتی اور پیداواری عمل کے دوران انسان کا پیداوار سے تعلق [پیداواری عمل اور مردہ محنت کے] محافظ اور [قیمتوں کے] ریگولیٹر کا رہ جاتا ہے”. (گرنڈریس) اس کا سبب سرمائے کی نامیاتی ساخت ہوتی ہے. جیسا کہ مردہ محنت کی بڑی مقدار حرکت میں ہوتی ہے. اس طرح ضروری سماجی محنت کی نامیاتی ساخت میں اضافہ قوت محنت کی طلب کو کم کر دیتا ہے. قوت محنت کی وافر مقدار بکنے کیلیے موجود رہتی ہے اور طلب اور رسد کے قانون اسے مزید سستا کرتے جاتے ہیں. “سرمایہ دارانہ ارتکاز کا عمومی قانون یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ طرز پیداوار سرمایہ داروں کے ہاتھوں میں بڑھتی ہوئی دولت (طاقت) (مشینری، فیکٹری، نقد رقم وغیرہ) اور محنت کشوں کی غربت (کم اجرتیں اور بڑھتی ہوئی بے روزگاری) دونوں میں اضافہ کرتا ہے”. (مائیکل رابرٹس)
گرنڈریس میں کارل مارکس لکھتے ہیں: “سرمائے کےارتکاز سے ذرائع پیداوار کی مرکزیت اور محنت کا اشتراک ایک فیصلہ کن موڑ پر پہنچ کر سرمایہ داری کے تسلط سے ناقابل مصالحت ہو جاتا ہے. ایسے میں اس تضاد کا پھٹنا سرمایہ دارانہ نجی ملکیت کے لیے موت کی گھنٹی بجانے لگتا ہے.
اور لوٹنے والے خود لٹ جاتے ہیں!“
شرح منافع
جب یہ واضع ہو گیا کہ قدر زائد منافع تخلیق کرتی ہے اور سرمایہ دارانہ ارتکاز مشین کی مدد سے مزدور کی پیداواری صلاحیت میں بے پناہ اضافے کے ساتھ زندہ محنت کی کم سے کم شرح پر زیادہ سے زیادہ پیداوار اور منافع کے حصول کی طرف جاتا ہے تو ہم مارکس کے ساتھ “شرح منافع میں گراوٹ کے رجحان کا قانون” پر پہنچ جاتے ہیں.
یعنی جب سرمائے کی نامیاتی ساخت میں اضافہ ہوتا ہے اور کم قوت محنت، مردہ محنت کے بڑے حجم کیساتھ مل کر پیداوار میں اضافہ کرتی ہے تو اجناس میں کم قدر منتقل ہوتی ہے اور اسی نسبت پیداواری لاگت میں بھی کمی ہوتی ہے. یہ کمی ان کی قیمتوں کو کم کر دیتی ہے.
یہ کہا جا سکتا ہے کہ کوئی بھی سرمایہ دار کم قیمتوں کے ساتھ بھی اعلی منافع کما سکتا ہے مگر قلیل مدت تک. چونکہ جب سرمایہ داری کی لالچی فطرت متحرک ہوتی ہے تو یہ ایک صنعت سے دوسری صنعت میں سرمائے کی منتقلی کا سبب بنتی ہے. اسی نسبت جب کوئی صنعت منافع کی بلند شرح دیتی ہے تو زیادہ سے زیادہ سرمایہ دار اس صنعت کا رخ کرتے ہیں. اس پورے پراسیس میں دو عمل واقع ہوتے ہیں جس صنعت سے سرمایہ نکلتا ہے وہاں سے بے روزگاری جنم لیتی ہے. چھوٹے کاروبار دیوالیہ ہو جاتے ہیں اور بڑے سرمایہ داروں کی دولت میں اضافہ ہوتا ہے. دوسری طرف نئی صنعت میں پیداوار بڑھ جاتی ہے زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کیلیے زیادہ سے زیادہ اشیاء کو فیکٹری کے دروازوں سے باہر منڈی کے میدان میں پھینکنے کیلیے اور زیادہ قوتِ محنت کی ضرورت پڑتی ہے، ایسے ادوار بے روزگاری کی شرح میں کمی کے ادوار بھی بن جاتے ہیں.
چونکہ سرمایہ داری مکمل طور پر غیر منصوبہ بند طرزِ پیداوار ہے لہٰذا کوئی بھی نہیں جانتا کے لمحہ موجود میں کس چیز کی کتنی ضرورت ہے یہی وجہ ہے کہ منافع کی ہوس زائد پیداوار کا سبب بنتی ہے اجناس کے ذخائر اکھٹے ہو جاتے ہیں لیکن ان کی مانگ ختم ہو جاتی ہے. یوں زائد پیداوار کا بحران جنم لیتا ہے جو پھر سے سرمائے کی منتقلی انسانی محنت اور پیدا شدہ ذرائع اور اجناس کی بربادی کی صورت میں نکلتا ہے. شرح منافع میں گراوٹ کے رجحان کا قانون وہ اہم ترین قانون ہے جس کی بنیاد پر مارکس کا نظریہ بحران تعمیر ہوا.
“مارکس کا پہلا قانون یہ کہتا ہے کہ صرف انسانی محنت ہی قدر پیدا کرتی ہے. دوسرا قانون یہ کہتا ہے کہ وقت کیساتھ ساتھ سرمایہ دار زیادہ سے زیادہ سرمائے کا ارتکاز کریں گے اور یہ رجحان قدرِ محنت کی نسبت ذرائع پیداوار کی قدر میں تیز ترین اضافے کی شکل اختیار کرے گا یعنی سرمائے کی نامیاتی ساخت میں اضافہ. لہذا اگر متغیر سرمائے کی شرح مستقل سرمائے کی نسبت گرتی ہے تو سرمایہ کاری کئے گئے سرمائے (مستقل اور متغیر) کی رفتار سے ہم آہنگی نہ رکھتے ہوئے مجموعی پیداوار میں اضافے کا رجحان ہو گا.
شرح منافع میں گراوٹ اور تیز ترین ارتکاز اب تک صرف ایک ہی عمل کے دو مختلف اظہار ہیں. ارتکاز شرح منافع میں گراوٹ کو تیز کرتا ہے. یہی وجہ ہے کہ ارتکاز وہ عمل ہے جو ناگزیر طور پر منافع بخش عمل کو ممکن نا بنا سکنے والے سرمائے اور فاضل آبادی کا سبب بنتا ہے. قدر زائد کا تصرف سرمائے کے پھیلاؤ کو ممکن بناتا ہے اور یہ پیدا کندگان کو اپنے استحصالیوں کے خلاف طبقاتی جنگ کو ناگزیر بنا دیتا ہے…” (مائیکل رابرٹس)
اگر سرمایہ دارانہ طرز پیداوار کو یک لفظی گردان میں بند کرنے کی کوشش کی جائے تو اس طرح کا سلسلہ وار سائیکل بنتا نظر آتا ہے. یعنی طلب و رسد کے قانون پر کم پیداوار = قلت = قیمتوں میں اضافہ = منافع کمانے کا موقع = سرمائے کا بہاؤ = پیداوار میں اضافہ = روزگار کے مواقع = ممکنہ بلند اجرتیں = عدم منصوبہ بندی = سرمائے کا ارتکاز = قلت کا خاتمہ = شرح منافع میں گراوٹ = گراوٹ کے جواب میں مزید سرمایہ کاری = کم قیمت پر اضافی پیداوار = ناقابل فروخت ذخیرہ = بحران = دیوالیہ پن = بے روزگاری = عدم مساوات میں اضافہ = غربت = قوت خرید میں کمی = بحران = خام مال، پیدا شدہ قدر اور انسانی محنت کی بربادی. یہ فارمولا سرمایہ دارانہ طرز پیداوار کی پوری تاریخ بیان کرتا ہے. مارکس کا ماننا ہے کہ یہ بحران اور انتشار نظام کی بنیادی فطرت میں شامل ہیں اور یہ اس کو خاتمے کی طرف لے جاتے ہیں
سرمایہ داری ایک پر انتشار طرزِ پیداوار ہے اور اس کا سماجی ڈھانچہ بھی اتنا ہی فرسودہ. سرمایہ داری کی فوری حرکیات میں لالچ اور حماقت شامل ہیں. اس کا نتیجہ یہ ہے کہ سرمایہ داری کی کارکردگی کا عروج عدم منصوبہ بندی اور انتشاری فطرت کے باعث انسانی و مادی وسائل کی بربادی کے علاوہ کچھ بھی نہیں
مارکس کے اس اقتباس کے ساتھ ہم آٹومیشن اور مصنوعی ذہانت کی طرف بڑھتے ہیں. کارل مارکس نے انسانی معاشرے میں پروان چڑھتے ہوئے نئے طرزِ پیداوار کی وحشت ناک فطرت کا ادراک کرتے ہوئے 174سال قبل لکھے گئے کیمونسٹ مینی فسٹو میں کہا تھا
“اپنے مال کیلیے منڈی کو برابر بڑھاتے رہنے کی ضرورت بورژواز طبقے کو سارے جہاں کی خاک چھاننے پر مجبور کرتی ہے. اسے ہر شاخ پر آشیانہ بنانا پڑتا ہے. ہر جگہ گھر بسانا پڑتا ہے. ہر جگہ تعلقات قائم کرنا ہوتے ہیں. بورژواز طبقے نے عالمگیر منڈی کے استحصال کے ذریعے ہر ملک میں پیداوار اور کھپت کو آفاقی رنگ دیا ہے. جدید بورژوا سماج نے گویا جادو کے زور سے پیداوار کے عظیم الشان وسیلے کھڑے کر لیے ہیں. مگر پیداوار تبادلے اور ملکیت کے اپنے رشتوں سمیت اس سماج کی حالت اس شعبدہ گر کی سی ہے جس نے اپنے جادو سے شیطانی طاقتوں کو جگا تو دیا لیکن اب انہیں قابو میں نہیں رکھ سکتا. اس سلسلے میں اُن بحرانوں کا نام لینا کافی ہو گا جو برابر وقفے سے لوٹ آتے ہیں اور پورے بورژوا سماج کی زندگی کو ہر بار پہلے سے بڑے خطرے سے دوچار کر دیتے ہیں. ان بحرانوں میں ہر بار صرف تیار شدہ مال کا ہی نہیں بلکہ پہلے کی پیداواری قوتوں کا ایک بڑا حصہ برباد کر دیا جاتا ہے. ان بحرانوں میں گویا ایک سی وبا پھیل جاتی ہے، زائد پیداوار کی وبا جو پہلے کے زمانوں میں انہونی معلوم ہوتی ہے. پھر بورژوا طبقہ ان بحرانوں پر قابو کیسے پاتا ہے؟ اس کے لیے ایک طرف نئی منڈیوں پر قبضہ کیا جاتا ہے اور پرانی منڈیوں کا استحصال مزید شدت اختیار کر جاتا ہے. یعنی زیادہ وسیع اور تباہ کن بحرانوں کو روکنے کے وسیلے اور بھی کم کر دئیے جاتے ہیں
(جاری)