Share this
تحریر: مائیکل رابرٹس
تحریر: الطاف بشارت۔
یورپی ‘ماہرین’ نے ایک بار پھر چین کی مالیاتی تباہی کی پیش گوئیاں شروع کر دی ہیں. ایک تبصرہ نگار کہتا ہے “چین بھڑک رہا ہے”؛ دوسرے کا کہنا “قرض کا بم پھٹنے والا ہے” ان کیسنڈراس (Cassandras : ایسے لوگ جن کے من گھڑت خیالات اعتبار کے قابل نہیں ہوتے) کا خیال ہے کہ چین کی موت پراپرٹی کا بلبلا پھٹنے، ضرورت سے زیادہ قرضوں اور معیشت کی گراوٹ کے باعث ہو گی جس کا سبب حکومت کی “خوفناک” ‘زیرو کورونا پالیسی’ ہے جو ملک کے کچھ حصوں کو مستقل لاک ڈاؤن میں رکھتی ہے. اور اس کے ساتھ یقیناً ایشیا میں موجود امریکی اتحادیوں کی طرف سے چین کی برآمدات اور بیرون ملک سرمایہ کاری پر بڑھتی ہوئی امریکی پابندیوں کی حمایت بھی ہے.
چین کی اقتصادی ترقی پر تنقید کے اس تازہ ترین جتھے میں کتنی صداقت ہے؟ پراپرٹی کا بحران خطرناک حد تک پہنچ چکا ہے. گزشتہ سال چین کا دوسرا بڑا پرائیویٹ پراپرٹی ڈویلپر، ایورگرینڈ، دیوالیہ پن کے دھانے پر تھا. ایور گرینڈ بنیادی طور پر گھوٹالے (Ponzi) کی سکیم ہے، جہاں کمپنی اپارٹمنٹس کی قبل از تعمیر فروخت کے ذریعے نقد رقم جمع کرتی ہے اس کے علاوہ لاکھوں انفرادی سرمایہ کاروں سے نقد رقم اور دیگر ذرائع سے فنڈز اکھٹا کرتی ہے تاکہ تعمیراتی کام تیز کیا جا سکے. کوئی بھی پونزی اسکیم اس وقت ہی کام کرتی ہے جب منڈی میں تیزی ہو. لیکن جب منڈی سست ہو جاتی ہے تو نقد رقوم آنا بند ہو جاتی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی لوگوں کی طرف سے رقم واپسی کے مطالبات بھی بڑھ جاتے ہیں. ایور گرینڈ کے پاس اب تقریباً 800 نامکمل پراجیکٹس ہیں اور تقریباً 1.2 ملین لوگ منتقل ہونے کے منتظر ہیں.
پراپرٹی کا بحران اس نہج پر پہنچ گیا ہے کہ لاکھوں چائنیز خریداروں نے اپنے رہن کی پیشگی ادائیگیاں روک دی ہیں۔ رہن کی ادائیگیوں پر گھروں کے خریداروں کا تیزی سے بڑھتا ہوا بائیکاٹ تقریباً 91 شہروں میں کم از کم 301 منصوبوں تک پھیل چکا ہے، جس میں رہن کی مالیت کا تخمینہ 2 ٹریلین یوآن (297 بلین ڈالر) تک پھیل سکتا ہے۔ چین میں گھریلو دولت کا تقریباً 70% رئیل اسٹیٹ میں لگایا جاتا ہے۔ کچھ چائنیز بینکوں نے یہ دعویٰ کرتے ہوئے کے یہ حقیقتاً ‘رہن کی سرمایہ کاری کی مصنوعات’ ہیں خریداروں کے بچت کے ذخائر ضبط کر کے اس کا جواب دیا ہے۔ اس عمل پر کچھ بینکوں کے سامنے مظاہرے پھٹ پڑے نتیجتاً حکومت نے بینکوں کو ٹینکوں سے گھیر لیا.
اسی دورانیہ میں، حتیٰ کے 2020 کے کورونا بحران سے بھی پہلے، چین کی معیشت کی عموماً شاندار رہنے والی حقیقی شرح نمو گراوٹ کا شکار ہے. جب 2021 میں بحالی مستحکم ہوئی تو کووڈ کی نئی اقسام کے ساتھ مقابلہ لاک ڈاون کے نئے سلسلوں کا سبب بنا رہا. چینی حکومت بڑی سرمایہ دارانہ معیشتوں کے مقابلے میں اموات کی شرح کو کم سے کم سطح پر رکھتے ہوئے صفر کووڈ کی اپنی پالیسی میں بڑی حد تک کامیاب رہی۔ لیکن اس کے نتیجے میں معاشی ترقی اور روزگار کو نقصان پہنچا.
2022ء کے پہلے تین مہینوں میں سہ ماہی بنیادوں پر چین کی معیشت موسمیاتی ایڈجسٹ شدہ 2.6 فیصد تک سکڑ گئی. ملک بھر میں شہری سروے پر مبنی بے روزگاری کی شرح مئی میں 5.9 فیصد تک کم ہوئی جبکہ 16 سے 24 سال کی عمر کے حامل گروپ والوں کے لئے بے روزگاری کی شرح 18.4 فیصد تک بڑھ گئی. یہ تیزی سے واضح ہوتا جا رہا ہے کہ حکومت اس سال کے لئے حقیقی شرح نمو کے 5 فیصد کا ہدف حاصل نہیں کر پائے گی. اور یاد رہے کہ یہ ہدف گزشتہ چند سالوں میں کم ہو گیا ہے کیونکہ پچھلی دہائی کی سالانہ توسیع کا دوہرا ہندسہ غائب ہو چکا ہے۔
تو کیا یہ ترقی کے چینی ماڈل کا اور ‘سوشلزم کی طرف بڑھنے’ کی بابت ہونے والی تمام باتوں (وغیرہ) کا خاتمہ ہے؟ بہت سے مغربی ماہرین ایسا ہی سوچتے ہیں. ان کے خیال میں چین کے رہنماؤں کا معیشت کو ‘آزادنہ بنانے’ اور سرمایہ دارانہ کمپنیوں اور منڈیوں کے لئے اس کو مزید کھولنے میں ناکامی اس تباہی کی وجہ ہے. یہ وقت “زیرو کووڈ” کو ختم کرنے اور پابندیوں کو نرم کرنے کا ہے جیسا کے مغرب میں ‘کامیابی سے ہو گیا’۔ درحقیقت، ان کے خیالات میں چین کو سرمایہ داری کی طرف زیادہ سے زیادہ بڑھنے کی ضرورت ہے۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ وہ نجی شعبے کو وسعت دے.
لیکن ذرا ٹھہریے! پراپرٹی کے موجودہ بحران اور قرضوں میں توسیع کی وجوہات کیا ہیں؟ اگر دیانتداری سے دیکھا جائے تو یہ بنیادیں چین کے بڑھتے ہوئے نجی شعبے کے در پر پڑی نظر آتی ہیں بالخصوص مالیات اور پراپرٹی کے شعبے میں جس کو چین کی قیادت کے ایک بڑے حصے نے فروغ دیا ہے.
چین میں رئیل اسٹیٹ اور مالیات جیسے غیر پیداواری شعبے میں سرمایہ کاری تیز ہوئی ہے. تمام ممالک میں صرف چین کے بڑھتے ہوئے شہروں میں گھروں کی تعمیر کے شعبے کو گھر خریداری کیلئے رہن پیش کرنے والے نجی سرمایہ کار ڈویلپرز پر کیوں چھوڑا گیا؟ سرکاری شعبے کی طرف سے گھر کرائے پر کیوں نہیں بنائے گئے؟ نتیجتاً مغربی املاک کی منڈی میں کریش کا کلاسیکل معاملہ ہے جسے اب ریاست کو صاف کرنا ہے. اس کا حل ریاست (مقامی حکومتوں) کے ذریعے پراجیکٹس کی تکمیل اور رہن رکھنے والوں کے اپنی رقم پر حقوق کی بحالی ہو گا.
چین میں کوئی مالیاتی بحران نہیں آنے والا. اس کی وجہ یہ ہے کہ مالیاتی طاقتوں، مرکزی بینک، دنیا کے سب سے بڑے چار بینک اور نام نہاد “برے بینک” جو برے قرضوں کو جذب کرتے ہیں، بڑے اثاثہ جات کی منتظمین اور زیادہ تر بڑی کمپنیوں کا کنٹرول حکومت کے ہاتھ میں ہے. حکومت چار بڑے بینکوں کو حکم دے سکتی ہے کہ وہ قرض نادہندگان کا ایکویٹی حصص سے تبادلہ کریں اور انہیں بھول جائیں. یہ سنٹرل بینک، پیپلز بینک آف چائنہ کو کہہ سکتے ہیں کہ وہ جو بھی کر سکتا ہے وہ کرے. وہ سرکاری اثاثہ جات کے منتظمین اور پینشن فنڈ میں اضافے اور کمپنیوں کو فنڈ دینے کیلئے شیئرز اور بانڈز کی خریداری کا کہہ سکتا ہے. یہ برے ریاستی بینکوں کو کمرشل بینکوں سے برا قرض خریدنے کیلئے کہہ سکتے ہیں. یہ مقامی حکومتوں کو پراپرٹی کے منصوبوں کو تکمیل تک پہنچانے کی اجازت دے سکتا ہے. لہٰذا مالیاتی بحران کو خارج از امکان قرار دیا جاتا ہے کیونکہ بینکنگ کا نظام ریاست کے کنٹرول میں ہے.
لیکن پراپرٹی کی موجودہ گڑبڑ اس بات کا عندیہ دے رہی ہے کہ چین کی معیشت کا منافع پر مبنی شعبہ اس انتشار سے سب سے زیادہ متاثر ہو گا. یہ پرائیویٹ سیکٹر ہی ہے جس نے کورونا کے دوران اور اس کے بعد بری کارکردگی کا مظاہرہ کیا. جس کی ایک چھوٹی سی مثال شنگھائی ہے جہاں کووڈ لاک ڈاؤن ناقص نتائج کیساتھ نجی شعبے کیلئے آؤٹ سورسنگ تھا. جبکہ بیجنگ میں براہِ راست حکومتی کام بہت زیادہ کامیابی کیساتھ کیا گیا.
سرمایہ دارانہ شعبے میں منافع کم ہوتا جا رہا ہے. جنوری تا مئی 2022ء میں چین کی صنعتی فرموں کے کمائے گئے منافع میں سالانہ ایک فیصد اضافہ کے ساتھ 34.41 ٹریلن ین ہوگیا جو اس سے گزشتہ مدت کے 3.5 فیصد اضافے سے کم ہے کیونکہ کووڈ کی روک تھام کی وجہ سے خام مال کی بلند قیمتوں اور سپلائی چین کی رکاوٹوں نے مارجن کو نچوڑنا جاری رکھا اور فیکٹری کی سرگرمیوں میں خلل ڈالا. سرکاری صنعتی فرموں کے منافع میں 9.8 اضافہ ہوا جبکہ نجی شعبے میں 2.2 فیصد کمی واقع ہوئی. صرف ریاستی شعبہ کی فراہمی جاری ہے. یہی سب 9-2008 کے عالمی مالیاتی بحران میں رونما ہوا تھا. جسے چین نے “بھڑکتے” ہوئے سرمایہ دارانہ شعبے کو ریاستی اخراجات میں اضافے کے ذریعے روکا تھا. جس کو ژی اور چین کے دیگر رہنماؤں نے “سرمائے کی بے ترتیب توسیع” کہا ہے.
حتیٰ کہ ژی کی قیادت میں بھی چین کا سرمایہ دارانہ شعبہ حقیقی شرح نمو، سرمایہ کاری اور روزگار میں کمی کیساتھ اپنے حجم اور اثر و رسوخ میں اضافہ کرتا جا رہا ہے. ایک حالیہ تحقیق سے یہ پتہ چلتا ہے کہ چین کے نجی شعبے نے نہ صرف مطلق طور پر بلکہ ملک کی سب سے بڑی کمپنیوں کے تناسب کے طور پر بھی ماحاصل یا (لسٹڈ کمپنیوں کیلئے) مارکیٹ ویلیو کے حساب سے ترقی حاصل کی ہے، جیسا کے 2010ء میں مستقبل کے سرکردہ رہنما کے طور پر صدر ژی نے اس کی تصدیق کی تھی. SOEs آمدن کے لحاظ سے ابھی بھی بڑی کمپنیوں پر حاوی ہیں لیکن ان کی برتری ختم ہوتی جا رہی ہے.
چین کے چھوٹے بحران کو جواب دینے کیلئے سرمایہ داری کی طرف بڑھنے اور مزید “آزادانہ” اصلاحات کرنے کے بجائے چین کو نجی شعبے کی توسیع تبدیل کرنے اور ریاستی سرمایہ کاری کو فروغ دینے کیلئے مزید مؤثر منصوبے متعارف کروانے کی ضرورت ہے. لیکن اب کی باری چین کے عوام کی شراکت داری کے ذریعے نہ کہ بینکوں کے باہر ٹینکوں کے ذریعے. بصورتِ دیگر “مشترکہ خوش حالی” کے حصول کیلئے حکمران قیادت کے مقاصد کھوکھلی باتوں کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہوں گے.
یہ سب کہنے کے بعد اب بھی صورتحال یہ ہے کہ عوامی شعبے کے غلبے والی چین کی معیشت مغرب کی G7 معیشتوں میں بہتر کام کر رہی ہے اور کرتی رہے گی. بڑی عیشتوں کیلئے آئی ایم ایف کی پیش گوئیاں درج ذیل ہیں.
اگر چین اس سال بھی صرف 4 فیصد کی نمو ممکن بناتا ہے تو یہ اب بھی G7 معیشتوں میں کسی بھی معیشت کے مقابلے میں بلند اور تیز شرح نمو ہو گی. آئی ایم ایف نے پیش گوئی کی ہے کہ 2023ء میں چین 5 فیصد سے زائد کی شرح سے ترقی کرے گا. یہ فرض کرتے ہوئے کہ کوئی نئی عالمی مندی نمودار نہیں ہو گی پھر بھی اگر G7 معیشتیں چین کی شرح نمو کا نصف بھی سنبھالنے میں کامیاب ہو جائیں تو یہ ان کی خوش قسمتی ہو گی. درحقیقت آئی ایم ایف کی طویل مدتی پیش گوئی کہ چین ایک سال میں کم سے کم بھی 5 فیصد کی شرح سے ترقی کرے گا یہ شرح امریکہ کے مقابلے میں دوگنا جبکہ مجموعی G7 معیشتوں کے مقابلے میں چارگنا تیز ترقی ہو گی.
مغربی ماہرین کے اس دعویٰ پر کہ ‘چین میں کام کرنے کی عمر میں کمی اور اس کی پیداواری نمو میں کمی کا مطلب یہ ہے کہ یہ ناکام ہونا شروع ہو جائے گا’ میں نے گزشتہ تحریروں میں اس پر بات کی ہے. یہ دلائل ضعیف اور ناقص ہیں. حتیٰ کہ کورونا کے دوران لیبر کی پیداواری ترقی کے مغربی پیمانوں پر بھی چین نے “متحرک” امریکہ کے مقابلے میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے.
درحقیقت، چین کے تحلیل ہونے سے متعلق مغربی ماہرین کی پیشگوئیاں (اور امیدیں) اور امریکہ اور نیٹو کے ماہرین سرمایہ کی حکمتِ عملیوں میں اتفاق نہیں پایا جاتا. وہ چین کی اندرونی ٹوٹ پھوٹ کی توقع نہیں رکھتے اسی لئے وہ بیرونی طور پر چین کی معیشت کا گلا گھونٹنے کی کوششیں کرتے رہتے ہیں.