Share this
یاسر خالق
“میں اس آزمائش میں اس لئے مبتلا ہوں کہ میں نے ملک کے شکستہ ڈھانچے کو پھر سے جوڑنے کے لئے متضاد مفادات کے حامل طبقات کے درمیان آبرومندانہ اور منصفانہ ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کی تھی۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ اس فوجی بغاوت کا سبق یہ ہے کہ درمیانی راستہ قابلِ قبول حل یا مصالحت محض یوٹوپیا (دیوانے کا خواب) ہے۔ فوجی بغاوت ظاہر کرتی ہے کہ طبقاتی کشمکش ناقابلِ مصالحت ہے اور اسکا نتیجہ ایک یا دوسرے طبقے کی فتح کی صورت میں ہی نکلے گا”۔
(شہید ذوالفقار علی بھٹو، اگر مجھے قتل کر دیا گیا)۔
یہ سطور ذوالفقار علی بھٹو کی سیاسی و نظریاتی زندگی کے تجربات کا عرق ہیں، جن میں ایک سیاستدان نے اعلیٰ سیاسی ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی سیاسی و نظریاتی غلطی کا انتہائی دیانتدارانہ اور جرات مندانہ اعتراف کیا ہے۔ اس تجزیاتی اعتراف کی بنیادی اور تاریخی خاصیت یہ ہے کہ اس میں تاریخ کو روایتی نقطہء نظر کی بجائے طبقاتی نقطہء نظر سے دیکھا اور بیان کیا گیا ہے۔ اس تجزیے کی مادی اور سماجی بنیادیں 1968-69 میں پاکستان کے طلباء ، مزدوروں اور کسانوں کی اس تاریخی طبقاتی جدوجہد میں موجود ہیں جس نے پیپلز پارٹی کو اسکے جنم کے ایک سال کے قلیل ترین عرصہ میں ایک کمرے سے نکال کر سیاسی افق کی بلندیوں پر پہنچایا اور ایوبی آمریت کی وزارت سے مستفعی ہونے والے ذوالفقار علی بھٹو کو پاپولرزم کی انتہاؤں پر پہنچاتے ہوئے “قائد عوام” بنایا۔
یہ تحریک دو متضاد مفادات کے حامل طبقات کے مابین مکمل طبقاتی جنگ تھی۔ یہ محنت کش طبقے کی جاگیرداری اور سرمایہ داری نظام کے خلاف زبردست بغاوت تھی۔ اس تحریک و بغاوت میں اتنی شدت موجود تھی کہ سرمایہ دارانہ نظام کو مکمل طور پر اکھاڑ پھینکا جا سکتا تھا۔ اس تحریک و بغاوت کی قیادت کرنے والی پیپلز پارٹی کے پاس سرمایہ دارانہ نظام کے متبادل سوشلسٹ نظام کا خاکہ اور منشور بھی موجود تھا لیکن تحریک و بغاوت ایک مکمل سوشسلٹ انقلاب کی صورت میں محنت کش طبقے کی فتح کی بجائے انتخابات کی شکل میں آبرومندانہ طبقاتی ہم آہنگی کی کوشش پر منتج ہوئی۔ اس تاریخی ناکامی کی ایک بنیادی وجہ پیپلزپارٹی کے کمزور اور ناکافی تنظیمی ڈھانچے اور تربیت یافتہ سیاسی و نظریاتی کیڈرز کا فقدان تھا۔ جس طرح جنگ جیتنے کے لئے جنگی حالت کے دوران فوج تعمیر نہیں کی جاسکتی بلکہ جنگ سے قبل فوج کو منظم اور تعمیر کیا جاتا ہے بالکل اسی طرح انقلابی حالات کے دوران انقلابی پارٹی بھی تعمیر نہیں کی جاسکتی بلکہ انقلاب سے قبل نوجوانوں اور محنت کشوں کو سیاسی و نظریاتی طور پر تیار اور منظم کرنا ہوتا ہے۔ پیپلزپارٹی کے ساتھ بھی یہی المیہ رہا کہ تحریک نے پیپلزپارٹی کو پارٹی تعمیر کرنے و منظم کرنے کا وقت ہی نہیں دیا۔ اسی لئے کمزور تنظیمی ڈھانچوں اور نظریاتی کیڈرز کے فقدان کے باعث تحریک ہر گزرتے دن کے ساتھ کمزور ہوتی چلی گئی اور تحریک کی قیادت منظم پارٹی کی بجائے ذوالفقار علی بھٹو کی طلسماتی شخصیت کے گرد جمع ہونا شروع ہو گئی۔ اسکے برعکس اگر کامیاب انقلابات کی تاریخ کو دیکھا جائے تو ہر تحریک و بغاوت کی کامیابی کے پیچھے وسیع اور منظم انقلابی قوتوں کا کردار بنیادی اہمیت کا حامل رہا ہے۔اکتوبر 1917ء میں روس کے کامیاب سوشلسٹ انقلاب کے پیچھے رشین سوشل ڈیموکریٹک لیبر پارٹی کے بالشویک دھڑے جیسی منظم انقلابی قوت کا کردار ایک ٹھوس مثال کی صورت موجود ہے جہاں لینن اور ٹراٹسکی کی قیادت میں ہزاروں کی تعداد میں تربیت یافتہ نظریاتی و سیاسی کیڈرز موجود تھے جنہوں نے محنت کشوں کی تحریک اور بغاوت کی منظم قیادت کرتے ہوئے انقلاب کو کامیابی سے ہم کنار کیا اور جاگیرداری و سرمایہ داری نظام کا خاتمہ کرتے ہوئے سوشلسٹ سماج کی بنیادیں رکھیں۔ اسی پہرائے میں اگر 1968-69ء کی تحریک مکمل طور پر سوشلسٹ انقلاب میں ڈھل جاتی تو نہ سقوطِ ڈھاکہ، نہ 5جولائی1977 اور نہ ہی 4 اپریل 1979 جیسے رجعتی سانحات رونما ہوتے۔
انقلاب ناکام ہوا اور ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں پیپلزپارٹی نے اقتدار میں آ کر بیشمار زرعی و صنعتی اصلاحات کی۔ جاگیروں کو بے زمین کسانوں میں تقسیم کیا گیا، بینکوں اور فیکٹریوں کو قومی تحویل میں لیا گیا، تعلیم و صحت کے شعبے کو قومی تحویل میں لیا گیا، طلبہ یونین اور ٹریڈ یونین کے حق کے ساتھ ساتھ بیشمار مزدور دوست اصلاحات کی گئیں۔ ایک طرف اس طرح کی ریڈیکل اصلاحات تھی تو دوسری طرف دائیں بازو کی رجعتی قوتوں کے ساتھ بھی مصالحت کی گئی جس سے انکو دوبارہ منظم ہونے کے مواقعے میسر آئے۔ جوں جوں تحریک کی شدت میں کمی آتی گئی توں توں رجعتی قوتوں کو منظم ہونے کا موقعہ ملتا گیا اور بالآخر 5 جولائی 1977ء کو جنرل ضیاء الحق نے منتخب حکومت کا تختہ الٹ کر ایک بار پھر مارشل لاء نافذ کر دیا اور قتل کے ایک جھوٹے مقدمے میں ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت سنا دی گئی۔
جیل کی کال کوٹھڑی میں بیٹھ کر ہی ذوالفقار علی بھٹو نے یہ تاریخی نتیجہ اخذ کیا تھا کہ مصالحت محض یوٹوپیا ہے اور طبقاتی کشمکش ناقابلِ مصالحت ہے اور اسکا ناگزیر نتیجہ ایک یا دوسرے طبقے کی فتح کی صورت میں نکلتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے موت کو سامنے آتے دیکھ کر بھی موت سے سمجھوتہ نہیں کیا بلکہ اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنی اس بات کو سچ ثابت کر دیا کہ “میں تاریخ کے ہاتھوں مرنے کی بجائے ایک فوجی جنرل کے ہاتھوں مرنے کو ترجیح دوں گا”۔
بدقسمتی سے بھٹو شہید کے اس تاریخی تجزیہ و اعتراف کو بتدریج پارٹی کے منشور و پروگرام سے بے دخل کر دیا گیا اور مصالحت، مفاہمت، اور سمجھوتوں کی بنیاد پر اقتدار کا حصول ہی ترجیح رہا، انقلابی منشور کو اصلاحاتی پروگرام تک محدود کر دیا گیا بلکہ کچھ رد اصلاحاتی اقدامات بھی اٹھائے گئے اور اس دوہرے کردار کا سلسلہ آج بھی جاری وساری ہے۔ آج پارٹی اپنی تاریخ کے سب سے بڑے، نظریاتی، سیاسی اور تنظیمی بحران کا شکار ہے۔ اس ساری کیفیت کو چند دن قبل چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے ایک انٹرویو میں کچھ یوں بیان کیا ہے کہ ” پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں میں ایک جماعت پاکستان پیپلزپارٹی ہے جو کہ لیفٹ آف سینٹر سیاسی پارٹی ہے۔ جبکہ اپنے آغاز میں پیپلزپارٹی سوشلسٹ پارٹی تھی۔ بدقسمتی سے اس وقت پاکستان میں ہم جہاں کھڑے ہیں وہ اس وژن سے بہت دور ہے جو میری پارٹی کے بانیوں نے پیش کیا تھا”
یقیناً پیپلزپارٹی کی بنیادوں میں سوشلزم اور انقلاب کی جڑیں موجود تھیں اور انہی کے باعث سماج کو بھی مزاحمتی و انقلابی سیاسی نظریات و تحریک کا اسی پلیٹ فارم سے اظہار کا موقع میسر آیا تھا۔ جوں جوں پارٹی میں سوشلزم اور انقلاب کی جڑیں کمزور ہونا شروع ہوئی تو سماج میں بھی ایک سیاسی و نظریاتی خلا پیدا ہونا شروع ہوا۔ مگر المیہ یہ ہے کہ اس بحران سے جنم لینے والے خلا کو ترقی پسند، انقلابی یا بائیں بازو کی قوتیں پر نہیں کر رہی بلکہ رجعتی، رد انقلابی اور دائیں بازؤ کا سیاسی و نظریاتی غلبہ سماج کو اپنی لپیٹ میں لئے ہوئے ہے۔
پیپلز پارٹی اور پاکستانی سماج پر قائم اس رجعتی، رد انقلابی اور دائیں بازو کے غلبے کو ایک اور 1968-69ء جیسی طبقاتی و انقلابی تحریک ہی شکست دے سکتی ہے لیکن اسکے لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ اس تحریک و بغاوت سے پہلے اس نام نہاد جمود و سکوت کے عہد میں سوشلزم اور انقلاب کے نظریات کو وسیع پیمانے پر زیر بحث لاتے ہوئے نوجوانوں اور محنت کشوں کو منظم کیا جائے تاکہ مستقبل کی طبقاتی تحریک کو ایک کامیاب سوشلسٹ انقلاب میں ڈھال کر ماضی کے ادھورے فریضے کی تکمیل کو یقینی بنایا جا سکے۔