Share this
کبیر خان
پاکستانی ریاست ایک تاریخی پسماندگی کا شکار ہے اور یہ پسماندگی وقت کے ساتھ ساتھ مزید گہری شکل اختیار کرتی چلی جارہی ہے۔ پاکستانی ریاست کی برآمدات کا ابتدا سے ہی بڑا انحصار اس کے زرعی خام مال پر رہا ہے اور یہ ایک جدید سرمایہ دارانہ صنعتی برآمدی ریاست بننے سے قاصر رہی ہے چونکہ ایک سرمایہ دارانہ نظام میں ترقی کی راہ پر گامزن ہونے کے لئے بھی زراعت اور صنعتی شعبے کی ترقی کا ایک گہرا دو طرفہ اور جدلیاتی رشتہ ہوتا ہے۔ کوئی بھی ایسا ملک جس کی معیشت کا بھاری انحصار اس کے زرعی شعبے پر ہو، اس وقت تک اپنی ذرعی معیشت کو بھی ترقی یافتہ شکل نہیں دے سکتا جب تک وہ سائنسی، تیکنیکی اور صنعتی ترقی کی قابل قدر صلاحیت نہ حاصل کر لے۔ زراعت کو بھی جدید خطوط پر استوار کرنے کے لئے بلآخر سائنسی، تیکنیکی اور صنعتی ترقی کی ناگزیر ضرورت ہوتی ہے، جدید انفراسٹرکچر تعمیر کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، پانی کی کم سے کم کھپت سے زیادہ سے زیادہ پیداوار کرنے کی صلاحیت حاصل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ورنہ ایسے ممالک زرعی شعبے میں بھی پسماندہ رہتے رہتے خود کفالت سے محروم ہو کر بیرونی انحصار پر مجبور ہوتے چلے جاتے ہیں اور یہ انحصار وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا ہی چلا جاتا ہے اور یہ انحصار کسی سانحہ کی صورت میں تو ایک المیہ ہی بن کر رہ جاتا ہے۔
پاکستانی ریاست بھی زرعی شعبے میں بلآخر اس سطح پر پہنچ چکی ہے جہاں اب اسے اپنی آبادی کی خوراک کی ضروریات پوری کرنے کے لئے خوراک کی بھاری مقدار درآمد کرنا پڑتی ہے۔ اس تمام تر صورت حال کی تصدیق سابق وزیر خزانہ شوکت ترین نے اپنے ایک بیان میں یوں کی تھی کہ ” اشیاء خوردونوش میں مہنگائی کی وجہ یہ ہے کہ آپ خوراک میں ایک نیٹ درآمدی ملک بن چکے ہیں۔ آپ کے پاس گندم نہیں ہے۔ آپ کے پاس چینی نہیں ہے۔ میں پرائس کنٹرول کمیٹی کی ایک میٹنگ کے دوران یہ جان کر حیران ہوا کہ ہم ستر فیصد دالیں درآمد کرتے ہیں”۔
اگر ہم زراعت کو درپیش مسائل کی جانب غور کریں تو کچھ چیدہ چیدہ اس نوعیت کے مسائل ہماری نظروں کے سامنے آتے ہیں۔
آبپاشی کی سہولیات کا فقدان:-
ایک تخمینے کے مطابق قابلِ کاشت زمین کے تقریباً اٹھائیس فیصد حصے کو آبپاشی کی سہولیات میسر ہیں جبکہ ہندوستان میں یہ تناسب تقریباً اسی فیصد ہے۔ اس کی بنیادی وجہ پانی کے ایک معیاری انتظامی نظام اور انفراسٹرکچر کا فقدان ہے۔ برطانوی تسلط کے دوران تعمیر کردہ انفراسٹرکچر کو مزید وسعت دینا تو دور، اس ریاست کی حکمران اشرافیہ اس کی مرمت کر کے اسے مکمل طور پر بحال اور قابلِ استعمال بنانے سے بھی قاصر ہے۔
متروک ٹیکنالوجی کا استعمال، معیاری اور سستے بیج و زرعی آلات کی قلت:-
پاکستانی ریاست کسانوں کو جدید ٹیکنالوجی سے مسلح کرنے اور انھیں معیاری بیج، سستی کھاد، ادویات اور پیداوار سے منسلک دیگر زرعی آلات کو سستے داموں مہیا کرنے سے قاصر رہی ہے۔ گزشتہ ایک دہائی کا جائزہ لیا جائے تو ٹریکٹر جیسی بنیادی مشینری کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ مثلاً 2012ء میں سب سے چھوٹے ٹریکٹر FIAT-480 اور Massey-240 کی قیمت 550,000 روپے تھی جو 2022ء میں 1,250,000 روپے سے تجاوز کر چکی ہے اور مہنگائی کی بڑھتی ہوئی لہر کی وجہ سے آنے والے بجٹ میں تقریبا دو لاکھ روپے کا مزید اضافہ متوقع ہے. اسی طرح چھوٹے کسانوں کے لئے بلا سود یا کم شرح سود پر قرضوں کی فراہمی کی بجائے شرح سود میں بھی بےپناہ اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ ذرعی ترقیاتی بینک چھوٹے کسانوں کو ذرعی قرضہ جات جاری کرنے والا سب سے بڑا قومی ادارہ ہے لیکن گزشتہ ایک دہائی کے دوران شرح سود 14 فیصد سالانہ سے تجاوز کر کے 24 فیصد سالانہ کی خطرناک حد کو چھو رہی ہے۔ اسی طرح بجلی کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ کسانوں کی پیداواری لاگت کو مسلسل بڑھا رہا ہے۔ یہ تمام تر صورتحال کسانوں کی مالی مشکالات میں مزید اضافے کا سبب بن رہی ہے۔ اس کے علاوہ کسانوں کو تربیت فراہم کرنے کےلئے کوئی ایسے خاطر خواہ اقدامات نہیں اٹھائے گئے جن سے ان کے پیداواری طریقوں میں جدت پیدا کر کے ان کی پیداواری صلاحیتوں کو بڑھایا اور نکھارا جاتا۔ اس سے بھی بڑا اور بنیادی مسئلہ کسانوں کے معیار زندگی کو بلند کرنے کے لئے کسی طرح کے کوئی اقدامات نہیں اٹھائے گئے اس کے برعکس نیولبرل اکنامک پالیسیوں کے تسلط کے ذریعے کسانوں کو ملنے والی ماضی کی کچھ چھوٹی موٹی رعایتوں اور سبسڈیز وغیرہ کا تیزی سے خاتمہ کیا گیا. جس کے باعث کسانوں کا معیار زندگی خوفناک انداز سے مزید گراوٹ کا شکار ہوا نتیجتاً کسان پسماندہ ٹیکنالوجی کے استعمال پر ہی مجبور رہے اور انھیں اپنی مالی مشکلات کے پرانے طریقہء پیداوار تک ہی محدود رہنا پڑا جس کے باعث پاکستان کی اوسط فی ہیکٹر پیداوار دو میٹرک ٹن سے تجاوز نہ کر سکی جوکہ عالمی اوسط تقریباً چار میٹرک ٹن فی ہیکٹر پیداوار کی نصف یا اس سے بھی کم ہے۔
زرعی اصلاحات کا مسئلہ:-
بلا شبہ پیپلز پارٹی کے پہلے دور حکومت میں 1972ء اور اس کے بعد زرعی تعمیر وترقی کے لئے کچھ اقدامات ضرور اٹھائے گئے لیکن ان پر ٹھیک طرح سے عملدرآمد نہیں کروایا گیا اور نہ ہی نگرانی کا کوئی واضح اور مؤثر طریقہ کار وضع کیا گیا اور نہ ہی انگریز سرکار کے مسلط کردہ جاگیردارانہ تسلط کو فیصلہ کن انداز میں توڑا گیا۔ جب 1968-69ء کی تحریک کی حدت ماند پڑنے لگی تو جاگیرداروں اور سرمایہ داروں نے پھر سے اپنی گرفت مضبوط کرنا شروع کر دی اوربلآخرضیاء آمریت کے تسلط کے ذریعے پیپلز پارٹی حکومت کا خاتمہ، ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی اور ریاستی جبر و تشدد اور قتل و غارتگری اور رداصلاحات کا آغاز ایک بھیانک اور سیاہ دور کی شکل میں ہوا۔ اس نیم جاگیردارانہ اور نیم سرمایہ دارانہ ریاست پر براجمان حکمران اشرافیہ نے عالمی سامراجی طاقتوں اور سرمایہ داروں کی ایماء پر نیو لبرل اکنامک پالیسیوں کو مسلط کرنا شروع کر دیا۔ زرعی شعبے کو ترقی دینے کے لئے کسی طرح کی کوئی سرمایہ کاری نہیں کی گئی۔ کسانوں کو جاگیرداروں، آڑھتیوں اور سرمایہ داروں کے رحم و کرم پر بے یار و مددگار چھوڑ دیا گیا جس کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے کسانوں کا خوفناک استحصال کیا گیا۔ کسانوں کی اکثریت کسمپرسی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے جن کے معیار زندگی میں اضافہ ہونے کی بجائے، تیزی سے مزید گراوٹ آتی جارہی ہے حالانکہ چینی، چاول، گندم، دالوں اور دیگر زرعی اشیاء کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہو رہا ہے لیکن اس کا ہرگز فائدہ کسان کو نہیں پہنچ رہا بلکہ اس کا بھرپور فائدہ مل مالکان اور آڑھتی اٹھا رہے ہیں۔
فصلوں کی کٹائی کے بعد انفراسٹرکچر کا فقدان اور اس کے اثرات:-
کسانوں کو دیگر تمام مسائل کے ساتھ ساتھ فصلوں کی کٹائی کے بعد ان کو سٹور کرنے کے لئے انفراسٹرکچر کے فقدان کا بھی سامنا ہے جس کی وجہ سے وہ کٹائی کے فی الفور بعد اپنی اجناس کو جلد از جلد فروخت کرنے پر مجبور ہوتے ہیں اور اس کا مل مالکان اور آڑھتی بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں۔ پیداوار کے بعد کسانوں کو اپنی اجناس فروخت کرنے کے لئے بھی ذلت آمیز عمل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ گنے کی ٹرالیاں لے کر ملوں کے سامنے کسانوں کی ہفتوں تک قطاریں لگی رہتی ہیں جو اپنے کئی شب و روز وہیں کھڑے کھڑے اس انتظار میں گزار دیتے ہیں کہ کب ان سے ان کی یہ اجناس خریدی جائیں اور اس ذلت آمیز عمل سے گزرنے کے بعد کسان اپنی پیداوار کم سے کم نرخوں پر فروخت کرنے پر مجبور ہوتے ہیں اور مل مالکان اس سے کئی گنا سرمایہ کماتے ہیں۔
زمینوں کی تقسیم در تقسیم کا عمل اور ٹھیکے پر زمینیں لے کر پیداوار کا عمل:-
ذرعی اصلاحات کے بعد بھی ایک تو زمینوں کی بہت کم مقدار کسانوں کے سپرد ہوئی اور دوسرا ناقص قطعات زمین کسانوں کے حصوں میں آئیں اور زیادہ تر زرخیز قطعات اراضیات جاگیرداروں نے کسی نہ کسی طرح اپنی اپنی ملکیت یا کنٹرول میں ہی رکھیں لیکن جو قطعات اراضیات کسانوں کے ملکیتی کنٹرول میں آئیں وہ اب تقریباً چار دہائیوں کے نسل در نسل تقسیم کے عمل سے گزرنے کے باعث اب ایک غیر پیداواری شکل اختیار کر چکی ہیں اور ان کم قطعات زمینوں پر پیداواری لاگت بہت بڑھ جاتی ہے جس کے سبب بہت سے کسان جاگیرداروں سے زمینیں ٹھیکے پر لے کر پیداوار کرتے ہیں۔ انھیں نیولبرل اکنامک پالیسیوں کے باعث ہوشربا پیداواری لاگت کے باعث فصلوں کی کٹائی کے فی الفور بعد اپنی اجناس اس وجہ سے بھی جلد از جلد فروخت کرنی پڑتی ہے تاکہ وہ لیا ہوا قرض اور زمین کے مالک کے پیسے ادا کر سکیں اس وجہ سے بھی انھیں کم سے کم نرخوں پر اپنی اجناس فروخت کرنا پڑ جاتی ہیں۔
یوں ذرعی اراضی کی غیر منصوبہ بندی پر مبنی نجی ملکیتی رشتے، سرمایہ دارانہ ریاست کے منافع کے تابع کردار کے باعث زرعی شعبے میں سرمایہ کاری کا فقدان، زراعت کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لئے سائنسی بنیادوں پر تحقیقی اداروں کا قیام اور پہلے سے موجود اداروں کو فعال بنانا، صنعتی شعبوں کو زرعی پیداوار کی نوعیت کے مطابق استوار کرنا اور سب سے بڑھ کر زمینوں کا کسانوں میں مساوی تقسیم کا عمل اور کسانوں کی پیداوار کے نئے طریقوں کا اپنانے پر ان کی تربیت کرنا وغیرہ جیسے اقدامات کے نہ ہونے کے باعث زرعی شعبہ اور زراعت ترقی کرنے سے قاصر ہیں جس کے نتیجے میں زراعت سے منسلک آدھی سے زائد آبادی کا معیار زندگی اس نظامِ زر میں دن بدن غربت کی اتھاہ گہرائیوں میں گرتا جا رہا ہے۔جس ملک کی برآمدات کا بڑا انحصار زرعی پیداوار کے خام مال پر رہا ہو وہ اب صنعتی مصنوعات کی برآمدات بڑھائے بغیر زرعی اجناس کی برآمدات میں بھی ایک تیز ترین گراوٹ کا شکار ہے اور اس کے برعکس اب تو یہ اشیاء خوردونوش بھی باہر سے درآمد کرنے پر مجبور ہے۔
ہاوسنگ سوسائٹیوں سے پھیلائی گئی زرعی اراضی کی تباہی:-
منڈی کے بے ہنگم پن اور منافع کی ہوس کے تابع عوامل اور ان کی تباہ کاریوں کی ایک واضح مثال ہاؤسنگ سوسائٹیوں کا تیزی سے بڑھتا ہوا ایک رجحان یے جس نے ذرعی اراضی کے ایک بہت بڑے حصے کو نگل لیا اور اس پورے عمل میں طاقتور ریاستی اداروں کی سرپرستی میں ایک خوفناک قبضہ مافیا پروان چڑھا ہے۔ سیاہ دھن کی بھاری مقدار اس شعبے میں لگا کر سیاہ دھن کو سفید دھن میں منتقل کیا گیا اور مسلسل کیا جا رہا ہے۔ طاقتور ریاستی ادارے براہ راست یا بلواسطہ طور پر ذرعی اراضیات پر ہاؤسنگ سوسائٹیاں قائم کرنے میں ملوث ہیں اس طرح یہ ریاستی ادارے اب مختلف کاروباروں کے مراکز بن چکے ہیں اور ان میں زمین کا کاروبار ان کے لئے بہت منافع بخش کاروبار ثابت ہوا ہے۔اس پورے عمل میں زرعی زمین کا رقبہ مسلسل گھٹتا چلا گیا ہے اور نتیجتاً ایک زرعی ملک اپنی خوراک کی ضروریات کو پورا کرنے سے قاصر ہو چکا ہے۔
ریاست کا نو آبادیاتی ڈھانچہ اور افسر شاہی کی بد عنوانیاں:-
جہاں اس ریاست کے ہر شعبے کے روبۂ زوال ہونے کے پیچھے عمومی طور پر سرمایہ دارانہ نظام اور اس کی نیولبرل اکنامک پالیسیوں کا عمل دخل ہے وہیں خصوصی طور پر اس ریاست کا نوآبادیاتی اور افسر شاہانہ ڈھانچہ بھی اس زوال کی ایک بڑی وجہ ہے۔ کیونکہ اس ریاست کے اداروں پر براجمان افسر شاہی کا اوپر سے لے کر نیچے تک بدعنوانی میں ایک بہت ہی بڑا ہوا کردار ہے جو باقی تمام مسائل کے ساتھ خود بھی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے مثلاً کیڑے مار ادویات بنانے والی کمپنیوں اور ریاستی اداروں میں بیٹھی اس افسر شاہی کا ایک گٹھ جوڑ ہے۔ یہ کمپنیاں ان ریاستی اہلکاروں کو ایسے ناقص بیج بیچنے کے لئے باقاعدگی سے بھاری رشوت دیتی ہیں تاکہ کسان مجبور ہو کر ان کمپنیوں کی کیڑے مار ادویات خریدیں۔ اس طرح اس ریاست کا بیوروکریٹک نوآبادیاتی ڈھانچہ ذرعی، صنعتی اور دیگر شعبوں کی ترقی میں باقی تمام رکاوٹوں کے ساتھ ساتھ خود بھی ایک بہت بڑی رکاوٹ ہے اور نتیجتاً یہ سماج ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود بھی خوراک کی آسمان سے باتیں کرتی مہنگائی کی شکل میں ایک اذیت برداشت کرنے پر مجبور ہے۔ اس لئے منڈی کی معیشت کے تسلط تلے ان مسائل کا سدھار کسی دیوانے کے خواب سے زیادہ کی کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔