پانچ جولائی کا انتقام ! انتخاب یا سوشلسٹ انقلاب ؟؟

Share this

تحریر: یاسر خالق

انسانی معاشرہ جب سے معاشی بنیادوں پر دو طبقات “وسائل پر قابض اور وسائل سے محروم” میں تقسیم ہوا تب سے ان متضاد مفادات کے حامل طبقات کے درمیان طبقاتی کشمکش کا بھی آغاز ہوا۔ معاشرے کا اکثریتی حصّہ طبقاتی کشمکش میں فیصلہ کن انداز میں اس لئے شامل ہوتا ہے تاکہ اپنے غصب شدہ بنیادی حقوق کو اجتماعی طور پر حاصل کیا جا سکے۔ محروم طبقات کی باہمی جڑت ہی حاکم طبقات کی شکست کی بنیاد بنتی ہے اسی لئے حکمران طبقات اس اتحاد کو کمزور کرنے اور توڑنے کے لئے متعصب نظریات اور منافرت سے لیکر طاقت کے استمعال تک کا سہارا لیتے ہیں. ملک، قوم، مذہب، مسلک، رنگ و نسل، زبان، علاقہ و برادری جیسی رجعتی سوچوں کی بنیاد پر عوام کی باہمی جڑت کو کمزور کرنے کی بھرپور کوشش کی جاتی ہے۔ اس طبقاتی کشمکش اور طبقاتی معرکہ میں جہاں بھی محنت کش عوام اور محروم طبقات اپنے آپ کو بطور ایک طبقہ منظم کرنے میں ثابت قدم رہے اور انکو ایک منظم متبادل سیاسی و انقلابی قیادت میسر آسکی وہاں انہوں نے پرانے نظریات، پرانے معاشی و سماجی ڈھانچوں اور پرانے ملکیتی رشتوں کو مکمل شکست دیتے ہوئے نئے معاشی،سماجی اور سیاسی نظاموں کی بنیادیں رکھیں۔ جہاں محنت کش عوام کی تحریکیں حکمران طبقات کی منافرتوں کی بھینٹ چڑھ گئیں یا تحریکوں کی قیادتوں نے مصالحت اور مفاہمت کے راستے اختیار کئے وہاں معاشرے مزید رجعت، تقسیم اور بربادی کا شکار ہوئے۔ اس خطے کی تاریخ کو ہی اٹھا کر دیکھ لیں برصغیر کے محنت کش اور غریب عوام کی برطانوی سامراج کے خلاف عوامی اور طبقاتی تحریک کو مذہبی منافرت کے ذریعے کمزور کر کے کچلا گیا اور برصغیر کے خطے اور عوام کو مذہبی بنیاد پر لڑا کر چیر دیا گیا۔ عوامی تحریک کی دو طرفہ قیادتوں نے اقتدار کی بندر بانٹ میں حصہ داری کی خاطر مصالحانہ اور مفاہمانہ کردار ادا کیا جبکہ عوام کو نام نہاد مذہبی آزادی کے نعرے پر جذباتی کرتے ہوئے یہ آس و امید دلائی گئی کہ مذہبی اور علاقائی آزادی کے بعد اچھے دنوں کی شروعات ہوگی۔ 75 سال بعد بھی چاروں اطراف کروڑوں انسانوں کی زندگی جہنم کی تصویر پیش کر رہی ہے جو کسی ناکردہ جرم کی دائمی سزا بھگت رہے ہیں جبکہ دوسری طرف اسی خطے کی مٹھی بھر اشرافیہ کے لئے یہیں پر بہشت کا سماں ہے۔

نومولود ریاست پاکستان اپنے آغاز سے ہی مختلف تضاداتکا شکار رہی۔ آئینی، قانونی، حکومتی اور انتظامی طریقہء کار پر ہی سیاسی و عسکری اشرافیہ گتھم گتھا رہی اور اقتدار کی مختلف شکلوں کا تجربہ ہوتا رہا۔ دس سالہ ایوبی آمریت نے عوام کو ایک بار پھر سوچنے پر مجبور کیا کہ مذہبی و علاقائی آزادی کی دو دہائیاں گزر جانے کے بعد بھی اکثریتی عوام تو آج بھی غلاموں کی سی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے جبکہ دولت اور وسائل چند ہاتھوں تک محدود اور مرتکز ہیں اور مزید شدت سے ہو رہے ہیں۔ ساٹھ کی دہائی کے وسط کے بعد پاکستان میں سیاسی ہنگامہ خیزی میں شدت آ چکی تھی۔ عمومی طور پر بھی دنیا کے مختلف خطوں میں اس عہد میں عوامی تحریکیں اور پاپولر قیادتیں ابھر رہی تھی۔ دنیا واضح طور پر دو بلاکوں میں بٹی ہوئی تھی۔ ایک طرف سرمایہ داری کا چمپیئن امریکی سامراج اور اسکی دم چھلا ریاستیں اور دوسری طرف سٹالنسٹ سویت ریاست، چین ماؤسٹ ریاست اور انکے زیر اثر دیگر ریاستیں موجود تھیں جو دنیا بھر کی سیاست اور معیشت پر برابر اثر انداز ہوتی تھیں۔ اسی بنیاد پر بیشمار ملکوں میں عوامی تحریکیں ابھریں اور سوشلزم کو متبادل کے طور پر زیر بحث لایا گیا اور یہی جدوجہد کا محور بھی رہا۔

پاکستان کی عوام نے 1968-69ء میں ایک بار پھر اپنے حالات بدلنے کی خاطر اجتماعی جدوجہد کا راستہ اپنایا۔ ایک طرف طلباء، بے روزگارنوجوانوں، مزدوروں، کسانوں اور غریب عوام نے سیاست کو سڑکوں پر بکھیر دیا تھا اور دوسری طرف پاکستان کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو ایوبی آمریت کی کابینہ سے استعفیٰ دے کر دیگر بائیں بازو اور ترقی پسند سیاسی افراد کے ساتھ مل کر ایک نئی پارٹی کی بنیاد رکھ رہے تھے۔ پارٹی کے قیام میں، اس کے نظریات اور پروگرام کی تشکیل میں سوشلسٹ نظریات کے حامل افراد کا کلیدی کردار موجود تھا جسکی واضح جھلک پارٹی کی بنیادی دستاویزات اور منشور میں صاف نظر آتی ہے۔ جیسا کہ تاسیسی دستاویزات میں درج ہے کہ
“پارٹی کی پالیسی کا اول و آخر مقصد طبقات سے پاک سماج کی تشکیل ہے جو ہمارے عہد میں صرف سوشلزم ہی سے ممکن ہے”۔
“پاکستان پیپلزپارٹی کے مقصد کو اگر ایک فقرے میں بیان کیا جائے تو یہ کہنا کافی ہوگا کہ پاکستان میں سوشلسٹ نظام کو رائج کیا جائے”۔
یقینی طور پر یہ نظریات، منشور اور پروگرام اس عہد کے ترقی پسندانہ اور انقلابی رجحان کی غمازی کرتے تھے اور صرف اسی بنیاد پر پیپلزپارٹی دیگر دائیں بازو کی سیاسی و مذہبی پارٹیوں سے یکسر مختلف کردار کی حامل سیاسی پارٹی کے طور پر ابھر کر سامنے آئی۔ محنت کش عوام نے اس منشور اور پروگرام کو اپنا منشور و پروگرام سمجھا اور سیاسی مظاہروں اور ہڑتالوں کی صورت میں نومولود پارٹی کو سیاسی زندگی بخشی۔ انقلابی نظریات اور انقلابی جدوجہد کے سنگم نے ہی ایوب خان جیسے طاقتور آمر کو اقتدار جیسی عزیز چیز کو چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور کیا۔ نومبر 67ء سے جنوری 68ء تک طلباء مزدوروں اور کسانوں نے سیاسی طاقت حکمران طبقات سے چھین لی تھی۔ فیکٹریوں اور جاگیروں پر مزدوروں اور کسانوں کے قبضے ہو رہے تھے۔ یہ وہ تاریخی لمحات تھے جب فیصلہ کن انداز میں آگے بڑھ کر ذرائع پیداوار کو مزدوروں کسانوں اور سماج کے جمہوری کنٹرول میں لیکر ملکیتی رشتوں کو مکمل طور پر بدلا جا سکتا تھا۔ یعنی جاگیرداری و سرمایہ داری کو مکمل شکست دے کر پیپلز پارٹی کے منشور کے مطابق سوشلسٹ سماج کی بنیاد ڈالی جا سکتی تھی۔ مگر بدقسمتی سے نومولود پیپلزپارٹی کے پاس نظریاتی تربیت یافتہ سیاسی کیڈرز کی کمی اور انقلابی تنظیم کے منظم جمہوری ڈھانچوں کے فقدان کے باعث انقلاب آگے نہ بڑھ سکا۔ مگر اس سیاسی اور تحریکی کیفیت سے پیپلزپارٹی پاپولر سیاسی رجحان کے طور پر ابھر کر سامنے آئی۔ سال1970ء کے عام انتخابات کے اعلان کے بعد پارٹی میں انتخاب اور انقلاب کے ایجنڈے پر مفصل اور طویل بحث رہی۔ ہالہ کانفرنس میں واضح طور پر دو نقطہ ہائے نظر موجود رہے، کہ آیا پارٹی کو انتخابات میں حصہ لینا چاہیے یا پھر ادھورے انقلاب کو مکمل کرنا چاہیے۔ دو دن کی بحث کے بعد یہ فیصلہ ہوا کہ انتخابات میں جانا چاہیے اور انقلاب کی بجائے اصلاحات کی بنیاد پر عوامی مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی جانی چاہیے۔ اس فیصلہ کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی تھی کہ تحریک کی طوالت کے باعث اصلاحاتی نظریات کے حامل افراد نے پارٹی میں قابل ذکر جگہ بنا ڈالی تھی اور انکا فیصلہ سازی پر اثر انداز ہونا ناگزیر عمل بن چکا تھا لہٰذا انکی منشاء اور رائے ہی مقدم رہی۔ انتخابات میں مغربی پاکستان میں پیپلز پارٹی اور مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ اکثریت سے کامیاب ہوئیں۔ مقتدرہ شیخ مجیب کو کسی صورت اقتدار دینے پر راضی نہیں تھی اور اسی ایشو پر مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان پہلے سے موجود اختلافات کی خلیج اتنی بڑھ گئی کہ بلآخر اکثریت نے اقلیت کے ہاتھوں تنگ آ کر اپنے الگ راستے کا تعین کر دیا۔ ہم سمجھتے ہیں 1947ء کی طرح 71ء میں بھی عوامی جڑت کو توڑنے کے لیے قومیت کو بطور ہتھیار استعمال کیا گیا اور دونوں اطراف کی محنت کش عوام کی طبقاتی جڑت کو قوم پرستی کے جذبات کے ذریعے توڑ کر سرمایہ داری کو جلا بخشی گئی۔1971ء کی جنگ کے بعد مغربی پاکستان میں پیپلزپارٹی کو اقتدار سونپا گیا۔ 71ء کی جنگ میں شکست کے بعد عسکری اشرافیہ کا مورال انتہائی شکست خوردہ اور پست ہو چکا تھا مگر ذوالفقار علی بھٹو نے انکی حوصلہ افزائی کر کے انکو نئی زندگی بخشی اور وہ دن بدن پھر سے طاقتور ہوتی گئی۔ پیپلز پارٹی نے ایک طرف عوامی دباؤ کے نتیجے میں کئی ریڈیکل اصلاحات کو متعارف کروایا۔ صنعت کے بڑے حصوں کو ریاستی یا قومی تحویل میں لیا گیا۔ جاگیروں کے خاطر خواہ حصے کو کسانوں میں تقسیم کیا گیا۔ بنیادی انسانی ضروریات یعنی خوراک، تعلیم، علاج، سفری سہولیات اور رہائش کے شعبوں میں بھی کئی اصلاحات کی گئیں اور انکی فراہمی کو ریاست کی ذمہ داری قرار دیا گیا۔ بنیادی طور پر ایک متبادل معاشی نظام کو پارلیمان کے ذریعے نافذ کرنے کا تجربہ کیا گیا۔ اس طریقہ کار کے ساتھ سرمایہ داری اور جاگیرداری کو ضرب تو لگائی جاسکتی تھی مگر انھیں حتمی شکست دینا ناممکن تھا۔ صنعت کو مزدوروں اور سماج کے کنٹرول میں دینے کی بجائے ریاستی کنٹرول میں لیا گیا جس کا ناگزیر نتیجہ افسرشاہی کے تسلط، اس کی بدمعاشی اور بعد ازاں بدعنوانی اور نااہلی کی صورت میں سامنے آیا۔ اسی طرح مذہبی اور رجعتی قوتوں سے مفاہمت کی گئی اور ان کے کئی رجعتی اور منافرت بھرے مطالبات کو تسلیم کر کے رجعت کو تقویت دینے کی راہیں ہموار کی گئیں۔ اس کیفیت میں مقتدرہ، رجعتی اور مذہبی قوتوں کے حوصلے بلند ہوئے اور ملاں ملٹری الائنس کو منظم ہونے کا پورا موقعہ دستیاب آیا یوں PNA کی رجعتی سیاسی تحریک نے ملٹری بیوروکریسی کی مداخلت کو جواز فراہم کیا۔ ایک طرف وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے جہاں زرعی، صنعتی اور سماجی اصلاحات کیں تو دوسری طرف اقتدار کی سیاست کے داؤ پیچ میں آ کر مصالحت اور مفاہمت کا شکار بھی ہوئے۔ خاص طور پر 1977ء کے الیکشن کے دوران اور اسکے بعد جب PNA کی طرف سے دھاندلی کے الزام کے تحت احتجاجی مظاہروں اور ہڑتالوں کا سلسلہ تیز ہونا شروع ہوا۔ اسی سیاسی عدم استحکام کو بنیاد بنا کر مارشل لاء کا راستہ ہموار کیا گیا۔ جنرل ضیاء الحق جیسے خوشامدی اور چاپلوس شخص نے امریکی گٹھ جوڑ کے ذریعے 5جولائی1977ء کو منتخب حکومت پر شب خون مارا اور ایک منتخب جمہوری حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ ذوالفقار علی بھٹو اور دیگر پارٹی قیادت کو گرفتار کر لیا گیا۔ جیلیں، کوڑے، پھانسیاں، جلاوطنیاں، ظلم و تشدد، مذہبی اور فرقہ وارانہ شدت پسندی ضیاء آمریت کا خاصہ تھا جبکہ دوسری طرف پیپلزپارٹی کے جیالے کارکنان کی تاریخ ہے جو آمریت کے ظلم و جبر کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند مزاحمتکارانہ کردار ادا کرتے رہے۔ بھٹو کو سزائے موت کے فیصلے کے بعد کئی ممالک کی طرف سے ذوالفقار علی بھٹو کو جلاوطنی اختیار کرنے کی پیشکش بھی کی گئی تاکہ وہ اپنی جان بچا سکیں مگر بھٹو کی دلیری، ہمت اور حوصلے نے انھیں ثابت قدم رکھا تب ہی انھوں نے کہا تھا کہ میں تاریخ کے ہاتھوں مارے جانے پر جنرلوں کے ہاتھوں مارے جانے کو ترجیح دوں گا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے جیل میں بیٹھ کر پوری تحریک اور اقتدار کا تجزیہ کرتے ہوئے اپنی آخری کتاب “اگر مجھے قتل کر دیا گیا” میں ایک حقیقت پسندانہ اور دیانتدارانہ نتیجہ اخذ کیا تھا۔ “میں اس آزمائش میں اس لئے مبتلا ہوں کہ میں نے ملک کے شکستہ ڈھانچے کو پھر سے جوڑنے کے لئے متضاد مفادات کے حامل طبقات کے درمیان آبرومندانہ اور منصفانہ ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کی تھی۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ اس فوجی بغاوت کا سبق یہ ہے کہ درمیانی راستہ قابل قبول حل یا مصالحت محض یوٹوپیا (دیوانے کا خواب) ہے۔ فوجی بغاوت ظاہر کرتی ہے کہ طبقاتی کشمکش ناقابل مصالحت ہے اور اسکا نتیجہ ایک یا دوسرے طبقے کی فتح کی صورت میں ہی نکلے گا”۔

اس تاریخی اور حقائق پر مبنی اعتراف کو اگر آسان الفاظمیں بیان کیا جائے تو اسکا سادہ مطلب یہ ہے کہ 1970ء میں ہالہ کانفرنس میں انتخاب کی بجائے انقلاب کا راستہ چنا جاتا تو جاگیرداری، سرمایہ داری اور افسرشاہی کو شکست دے کر حقیقی عوامی جمہوریت کی بنیادیں رکھی جاسکتی تھیں جو آگے بڑھ کر طبقات کے خاتمے کی طرف حقیقی سنگ میل ثابت ہوتا۔ لیکن حقیقت یہ ہے بدقسمتی سے پیپلز پارٹی اس تاریخی سچائی سے اب تک اسباق سیکھنے کو تیار نہیں۔ مزاحمت اور مصالحت کے بیچ اس تذبذب اور جھول نے قیادت، کارکنان اور عوام کو مسلسل ایک آزمائش میں مبتلا رکھا اور پارٹی کو کارکنان اور قیادت کی جانوں کے کئی نذرانے بھی پیش کرنا پڑے۔ سویت یونین کے انہدام کے بعد جہاں بڑے بڑے انقلابی بت سرمایہ داری اور منڈی کی معیشت کے سامنے پاش پاش ہو کر بکھر گئے وہیں پر سوشل ڈیوکریسی اور اسکی قیادتوں نے بھی نیولبرل ازم کی معاشی پالیسیوں کو اپناتے ہوئے ماضی میں کی جانے والی اصلاحات کو رد اصلاحات میں بدلنے کے سفر کا آغاز کیا۔ نیشنلائزیشن کی بجائے نجکاری، ڈاؤن سائزنگ اور دیگر عوام دشمن اقدامات اٹھائے گئے یا انکی خاموش حمایت کی گئی۔ نظریاتی اور سیاسی پالیسی کے اس بدلاؤ نے ایک طرف پارٹی کے نظریاتی، سیاسی اور تنظیمی ڈھانچوں کو بری طرح متاثر کیا تو دوسری طرف رجعتی اور بنیاد پرست قوتوں کو سماج میں منظم ہونے کا بڑا موقع فراہم کیا۔ آج سماج کے ہر شعبے اور ہر پرت پر ضیاء دور سے شروع ہونے والی رجعت اور شدت پسندی کے کالے بادل مزید گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔ سماج سے طلباء اور مزدور سیاسی تحریک اور مزاحمتی سیاست مکمل غائب نظر آ رہی ہے۔ یہ کیفیت ایک گہرے سیاسی و سماجی بحران اور جمود کی عکاسی کر رہی ہے۔ ریاست اور سماج کے ہر شعبہ ہائے زندگی میں عملی طور پر ضیائیت کا راج نظر آ رہا ہے جبکہ بھٹو ازم صرف کتابوں اور نعروں تک محدود ہوچکا ہے۔ 75 سالہ آمریت اور جمہوریت کے تجربات نے عوام کو ماسواۓ غربت، جہالت اور ذلت کے کچھ نہیں دیا لہذا اس وقت پاکستان کی معاشی، سماجی اور سیاسی صورتحال اس بات کی متقاضی ہے کہ آج پھر سے ہالہ کانفرنس میں ہونی والی بحث کا ازسرنو آغاز کیا جائے اور اس بحث کو طلباء، مزدوروں، کسانوں، بےروزگار نوجوان اور غریب محنت کش عوام تک لے جایا جائے کیونکہ جب تک سماج کی ہراول پرتیں سیاست میں شامل نہیں ہوتیں سیاست کے کردار کو نہیں بدلا جا سکتا اور سیاست کے کردار کو بدلے بغیر عوامی تحریک کو منظم اور تعمیر کرنا ممکن نہیں۔ مروجہ نظامِ معیشت، نظامِ سیاست اور طرز حکومت صرف اشرافیہ کے مفادات کی مخافظ ہیں جبکہ اکثریتی عوام اس سارے کھیل میں صرف ایندھن کے طور پر استعمال ہو رہی ہے۔ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ جاگیرداری اور سرمایہ داری کی بربادیوں کے خلاف بھرپور پروپیگنڈہ کرتے ہوئے سوشلزم کو بطور متبادل عوام میں متعارف کروایا جائے اور اس کے گرد سماج کی مختلف پرتوں کو منظم کیا جائے تاکہ عوامی تحریک کی بحالی ممکن ہو سکے۔ ایک عوامی تحریک ہی ایسے انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے جہاں سرمایہ دارانہ جمہوریت اور آمریت کو مکمل شکست دیتے ہوئے حقیقی عوامی جمہوریت کی بنیادیں رکھی جا سکیں جس کا ذکر پیپلز پارٹی کی تاسیسی دستاویزات میں بڑی وضاحت کے ساتھ کیا گیا ہے۔ جیسا کہ “اس پارٹی کا یہ مقصد ٹھہرا کہ یہاں ایک ایسی عوامی جمہوریت کو قائم کیا جائے جس میں ملک کے تمام افراد کو ہر شعبہء زندگی میں مساوی حقوق حاصل ہوں۔ اس میں شک نہیں کہ جمہوریت میں قانوں کی نگاہوں میں سب کی برابری ضروری ہے لیکن یہ مساوات نامکمل رہ جاتی ہے جب تک کہ کسی جمہوری نظام میں معاشی و معاشرتی عدل و انصاف کی بنیاد پر سب کے حقوق مساوی نا ہوں۔ اس لیے سوشلزم ہی ایک ایسا نظام ہے جوکہ تمام افراد کے لئے یکساں مواقع پیدا کرتا ہے اور انکو معاشی لوٹ کھسوٹ سے محفوظ رکھتا ہے۔ طبقاتی کشمکش اور اس کے ساتھ وابستہ قید و بند سے آزاد کرتا ہے”۔

یہی آج کے عہد کی سیاست و معیشت ہے جو سسکتی اور تڑپتی عوام کو روٹی، کپڑا اور مکان کی حقیقی ضمانت فراہم کر سکتی ہے جبکہ سرمایہ دارانہ معیشت و سیاست ذلت و رسوائی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ بہتے دھارے کے خلاف تیر کر ہی طبقاتی و انقلابی تاریخ میں زندہ رہا جا سکتا ہے وگرنہ تاریخ میں کسی جرم کی معافی کی کوئی گنجائش موجود نہیں ہوتی ہے۔