مئی 1886: جب امریکہ کے شہر شکاگو میں محنت کشوں کو سرمائے کے استحصالی تسلط کو للکارنے کی پاداش میں خون میں نہلا کر شہید کر دیا گیا تھا

Share this

کبیر خان

گوکہ سرمایہ دارانہ نظام کا انسانی سماج میں وقوع پذیر ہونا انسانی تاریخ میں ایک شاندار ترقی پسندانہ اور آگے کا قدم تھا لیکن اس نظامِ زر کے قائم ہونے کے ساتھ ہی محنت کش عوام کے ننگے استحصال کا آغاز بھی ہو گیا تھا۔ محنت کشوں سے اٹھارہ اٹھارہ، سولہ سولہ اور چودہ چودہ گھنٹے تک روزانہ کم سے کم اجرت پر کام لیا جاتا تھا۔ محنت کش طبقے کے حالات کار، اوقات کار اور حالات زیست بدترین منظر پیش کر رہے تھے جن سے تنگ آکر محنت کشوں کی پے در پے مزاحمتیں دیکھنے کو ملتی رہیں۔ مزدوروں اور فطرت کا استحصال سرمایہ دارانہ نظام کا ایک جبلی خاصہ ہے کیونکہ اس نظامِ زر کی بنیاد ہی منافع اور شرحِ منافع کے حصول پر کھڑی ہے۔ سرمایہ دار طبقہ اور اس کی نمائندہ سرمایہ دارانہ ریاست پر براجمان حکمران طبقات ہمیشہ اپنے طبقے کے مفادات کے حصول اور تحفظ کے لئے آئین، قوانین اور پالیسیاں تشکیل دیتے ہیں اور محنت کش عوام کو غلامی کے شکنجے میں جکڑنے کے لئے ہر حربہ استعمال کرتے آئے ہیں، اس نظامِ زر کے تحت وہ یہی کرتے رہے ہیں اور آئندہ بھی جب تک یہ نظام زر ہم پر مسلط ہے، وہ یہی کرتے رہیں گے۔

اس نظامِ سرمایہ داری میں دو دنیائیں آباد ہیں۔ ایک استحصال کرنے والوں کی دنیا ہے اور دوسری استحصال زدہ محنت کش عوام کی دنیا ہے۔ ایک عیاشیوں سے بھرپور دنیا ہے اور دوسری فاقہ کشوں کی اور دو وقت کی روٹی کے لئے ترستی محنت کش عوام کی دنیا ہے۔ یہ دو مختلف دنیائیں انسانی سماج میں اس وقت سے موجود ہیں جب سے انسانی سماج دو متضاد طبقات میں تقسیم ہوا تھا۔ایک وہ جس کی ہاتھوں کی محنت زندگی کی ضروریات کی تکمیل کو جلا بخشتی تھی اور دوسرا وہ جو اس محنت کش طبقے کی محنت کے پھل پر عیاشی کرتا تھا اور اسی وجہ سے عظیم انقلابی کارل مارکس نے کہا تھا کہ انسانی تاریخ دراصل طبقاتی کشمکش کی تاریخ ہے۔ سماج کی اسی طبقاتی تقسیم کے ساتھ ہی ریاست کا ظہور بھی ہوا تھا جس کا حتمی مقصد صاحب دولت طبقات کی دولت اور وسائل کو تحفظ فراہم کرنا تھا اور غریب محنت کش عوام کو ریاستی جبر کے ذریعے دبا کر رکھنا تھا۔ تاریخ گواہ ہے کہ غریب محنت کش عوام کو ان امیر طبقات سے کبھی بھی آج تک کوئی بھی چھوٹے سے چھوٹا حق بھی کسی اخلاقی یا انسانی ہمدردی کی بنیاد پر نہیں ملا بلکہ اس کے لئے محنت کش عوام کو طویل جدوجہد کرنا پڑی ہے، اپنی جانوں تک کو قربان کرنا پڑا ہے۔

ایسی ہی ایک تاریخ ساز قربانی شکاگو کے ان محنت کشوں نے بھی دی جو یکم مئی 1886ء کو ایک پرامن مظاہرے کے ذریعے اوقات کار میں کمی کا مطالبہ لے کر باہر نکلے تھے۔ مزدوروں کا یہ عمل سرمایہ داروں کے لئے قابلِ قبول نہیں تھا کیونکہ یہ محنت کشوں کی پچھلی مزاحمت اور جدوجہد کا ہی ایک بھرپور تسلسل تھا، اس لئے سرمایہ داروں نے جدوجہد میں شامل ان محنت کشوں کے خلاف اپنی ریاستی مشینری کو استعمال کرنے اور اس پرامن مظاہرے کو خون میں نہلا کر اسے نشان عبرت بنانے کا فیصلہ کر لیا۔ تین مئی کو پولیس نے ایک فیکٹری میں گھس کر چھہ مزدوروں کو شہید کر دیا۔ چار مئی کو مزدوروں نے اس اندوہناک واقعے کے خلاف اور اوقات کار میں کمی کے مطالبے کو جاری رکھتے ہوئے ایک اور پرامن ریلی نکالی۔ مزدور اوقات کار کو کم کر کے آٹھ گھنٹے کرو، کا نعرہ بلند کر رہے تھے لیکن سرمایہ دار اس مزاحمت کو کچلنے کی ٹھان چکے تھے اور اس کے لئے پولیس کو بھاری رشوت دی جا چکی تھی جس کی وجہ سے ریاست کی جانب سے ایک منصوبے کے تحت اپنے ایک ایجنٹ کے ذریعے پولیس پر بم پھینکوا کر تشدد کا جواز پیدا کیا گیا اور یوں پولیس نے پرامن مظاہرین پر اندھا دھند فائرنگ کھول دی جس کے نتیجے میں لاتعداد مزدور شہید اور کئی زخمی ہوگئے اور انھی زخمی مزدوروں میں سے اٹھ کر ایک مزدور نے اپنی سفید شرٹ جو خون سے سرخ ہو چکی تھی، نعرہ بلند کرتے ہوئے ہوا میں لہرائی، تبھی سے مزدوروں کے جھنڈے کا رنگ سرخ پڑا تھا جو دراصل جدوجہد اور قربانی کا ایک عظیم نشان ہے۔ یہ شکاگو کے انھی مزدوروں کی قربانیوں کا صلہ ہے کہ محنت کشوں کو عالمی سطح پر آٹھ گھنٹے اوقات کار نصیب ہوئے۔ اسی پس منظر میں مزدوروں کی دوسری عالمی تنظیم جسے دوسری انٹرنیشنل کہا جاتا ہے، نے 1889ء میں یکم مئی کو باضابطہ طور پر عالمی یومِ مزدور کے طور پر بنانے کا فیصلہ کیا تاکہ اس دن کے توسط سے عالمی مزدور تحریک کو اس نظامِ زر کے خلاف طبقاتی بنیادوں پر جوڑا جا سکے۔

عالمی سطح پر محنت کش طبقے کی جدوجہد جاری رہی جس کے نتیجے میں اکتوبر 1917ء میں روسی محنت کشں عوام کو روسی سوشل ڈیموکریٹک لیبر پارٹی کے بالشویک دھڑے اور لینن کی قیادت میں اقتدار پر قبضہ کرنے میں کامیابی حاصل ہو گئی جس کے ذریعے انھوں نے روس سے جاگیرداری اور سرمایہ داری کا خاتمہ کر کے تمام وسائل کو محنت کش عوام کے تصرف میں لانے کی بنیاد رکھی۔ روسی محنت کشوں کی اس کامیابی سے عالمی مزدور تحریک کو ایک نیا حوصلہ ملا اور وہ ہر ملک میں سرمایہ داروں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ گوکہ سوشل ڈیموکریسی کی قیادتوں کی اصلاح پسندانہ پالیسیوں کی شکل میں نظریاتی غداریوں کے باعث انھیں اقتدار پر قبضہ کر کے سرمایہ داری کے مکمل خاتمے کے مواقع تو میسر نہ آسکے لیکن سرمایہ دار حکمران طبقات اس عمل سے اس قدر خوفزدہ ضرور ہوئے کہ جس جس ملک کے اندر بھی محنت کش عوام کی تحریک ابھری، حکمران طبقے نے اوپر سے اصلاحات کر کے محنت کشوں کے اس غم و غصّے کو ٹھنڈا کرنے کی کوششیں تیز کردیں جس کے نتیجے میں ہمیں مغربی یورپی ممالک کے اندر سوشل ویلفیئر سٹیٹ کا ایک تصور ابھرتے ہوئے نظر آیا۔

اس مملکت خدادا کے محنت کشوں نے بھی ایک ایسی ہی عظیم طبقاتی بغاوت کا 1968-69ء میں الم بلند کیا تھا جس نے جنرل ایوب کی آمریت کا تختہ الٹ ڈالا اور جس تحریک کی کوکھ سے پاکستان پیپلز پارٹی کا جنم ہوا تھا لیکن بدقسمتی سے روسی سوشل ڈیموکریسی کے بالشویک دھڑے کے معیار کی نظریاتی قیادت اور نظریات سے مسلح پارٹی کے فقدان کے باعث یہ موقع اپنی حتمی منزل یعنی سرمایہ داری اور جاگیرداری کے مکمل خاتمے اور ایک سوشلسٹ سماج کی بنیاد رکھنے، کے حصول میں کامیاب نہ ہو سکا لیکن تحریک کی شدت کو زائل کرنے کے لئے پہلے اس ملک کو قومی بنیادوں پر دو لخت کیا گیا لیکن جب پھر بھی تحریک کی حدت کم نہ ہو سکی تو مجبوراً اقتدار پیپلز پارٹی کو سونپنا پڑا جس کے بعد پیپلز پارٹی نے سرمایہ دارانہ فریم ورک میں رہتے ہوئے، کچھ اداروں کی نیشنلائزیشن کی، کچھ زرعی اصلاحات کیں لیکن جونہی تحریک کی شدت ماند پڑی تو اس ریاست نے ایک فوجی آمریت کے ذریعے اس ملک کے محنت کشوں اور پیپلز پارٹی کی قیادت سے جارحانہ انتقام لیا۔ لیکن فیصلہ کن موقع تب آیا جب دسمبر 1991ء میں سوویت یونین کا انہدام ہوا تو عالمی سرمایہ دار طبقے کا اصل استحصالی چہرا پھر کھل کر سامنے آنا شروع ہو گیا جس نے پے در پے وہ تمام حقوق ایک ایک کر کے محنت کشوں سے واپس چھیننے شروع کر دیئے جو انھوں نے ایک طویل جدوجہد اور قربانیوں کے بعد حاصل کئے تھے۔ اس مقصد کے لئے عالمی سرمایہ دار حکمران طبقے نے ایک طرف اپنے تمام تر ذرائع کے ذریعے سوشلزم کے خلاف غلیظ پروپیگنڈا کیا اور دنیا بھر کے محنت کشوں کو یہ باور کروانے کی کوشش کی کہ سوشلزم ناکام ہوگیا ہے اور دوسری طرف انھوں نے اپنے سرمایہ دارانہ نیو لبرل نظریات اور پالیسیوں کو مسلط کرنا شروع کیا۔

روسی انقلاب کی کامیابی سے عالمی مزدور تحریک کو ملنے والے حوصلے اور اٹھان کے خوف سے جس کینشئین ماڈل (ریاستی سرمایہ داری) کے تحت جو اصلاحات کی گئی تھیں اور جن اداروں کو قومی تحویل میں لیا گیا تھا، انھی اداروں کی نجکاری کے ذریعے سرمایہ داروں کو نیلامی کر دی گئی اور اسی ریاست کو معیشت سے بے دخل کر دیا گیا۔ نتیجتاً مستقل اور قابلِ پینشن ملازمتیں قصہ پارینہ بنتی چلی گئیں اور ان کی جگہ ٹھیکیداری نظام اور کنٹریکٹ ملازمتوں کو متعارف کروایا گیا۔ مستقل ملازمتوں کے احساس تحفظ کے ساتھ جو منظم ٹریڈ یونین کا عمل جڑا تھا، اسے بھی تہس نہس کردیا گیا۔ مفت علاج اور تعلیم ماضی کی بھولی بسری یادیں بن کر رہ گئے اور یہ شعبے سرمایہ داروں کے لئے انتہائی منافع بخش کاروبار کی شکل اختیار کرتے چلے گئے جبکہ غریب محنت کشوں کے بچے جو ایک عہد میں یونیورسٹی تک کی تعلیم حاصل کر لیتے تھے، وہ صرف ترستی نگاہوں سے ان پڑھتے کے اندھیروں میں گم ہوتے چلے گئے، غریب محنت کش عوام لاعلاجی سے ایڑھیاں رگڑتے رگڑتے موت کی آغوش میں سونے پر مجبور کر دئیے گئے۔ مہنگائی کے طوفان نے ان پر دوہرا عذاب نازل کر ڈالا۔ گھروں کے کرائے ادا نہ کر سکنے کے باعث لاکھوں کو فٹ پاتھوں پر سونے پر مجبور کر ڈالا اور کتنی ہی بڑی تعداد کو کوڑے کے ڈھیر سے چن چن کر کھانے پر مجبور کر ڈالا۔

ابھی بھی یہ راگ الاپا جاتا ہے کہ یہ مہذب انسانوں کا سماج ہے جس میں نہ تہذیب بچی ہے اور نہ ہی انسانیت۔ دولت کی ہوس ہے کہ مٹنے کا نام نہیں لیتی جبکہ دولت کا چند مٹھی بھر ہاتھوں میں ارتکاز ہے کہ آج تک انسانی تاریخ نے کبھی نہیں دیکھا اور اگر ان کی نسلیں بھی کھاتی رہیں تو شاید ہی یہ دولت کم پڑ سکے لیکن ہوس یے کہ بڑھتی ہی چلی جارہی ہے اور ان دولت مندوں کے حق میں ملاؤں، پنڈتوں اور پادریوں کے قصیدے ہیں کہ بڑھتے ہی چلے جارہے ہیں لیکن وہ یہ قصیدے کیوں نہ پڑھیں کیونکہ انھی قصیدوں کے عوض ہی تو وہ پرتعیش زندگیاں بسر کر رہے ہیں، کروڑوں کی گاڑیوں اور اربوں کے محلات میں رہ رہے ہیں لیکن غریب محنت کش عوام کو سادگی اور صبر کی تلقین کرتے نہیں تھکتے تاکہ وہ ان بدترین حالاتِ زیست سے تنگ آکر کہیں کوئی بغاوت ہی نہ کر دیں۔ منصف انصاف دینے کی بجائے انصاف بیچ رہے ہیں اور انصاف کا اچھا خریدار بڑا دولت مند ہی ہو سکتا ہے اور انصاف کیوں نہ بیچا جائے جب اس نظامِ زر میں ہر چیز برائے فروخت ہے اور ہر چیز کا مقصد ہی حصول منافع ہے تو پھر انصاف کیوں نہ برائے فروخت ہو۔ ڈاکٹر کی مسیحائی پر بھی حسب معمول دولت کی ہوس غالب آگئی اور یوں ہر چیز کا، ہر تعلق اور رشتے کا مقصد ہی فائدہ اور حصول نفع ٹھہرا۔
ایک طرف سوویت یونین کے انہدام اور دوسری طرف سوشل ڈیموکریسی کے نیو لبرل ازم کے سامنے سرنگوں کرنے اور اسی طرح سے ٹریڈ یونین قیادتوں کے مزدور تحریک کو غیر سیاسی کرنے کے عمل نے مزدور تحریک کو گہری پسپائی کا شکار کیا ہے جس سے سرمایہ دار طبقے کو اور زیادہ جارحانہ انداز میں حملہ آور ہونے کے مواقع میسر آتے رہے ہیں۔ جیسے یہاں پاکستان پیپلز پارٹی نے ضیاء آمریت کے خاتمے کے بعد اپنے بنیادی نظریات، پروگرام اور پالیسیوں پر ایک معذرت خواہانہ رویہ اپنایا اور عالمی مالیاتی اداروں، مقامی سرمایہ دار حکمران طبقات، ریاستی افسر شاہی اور دائیں بازو کے مسلط کردہ نیو لبرل نظریات کے ہر اقدام پر ہاں میں ہاں ملائی جس کے باعث وہ محنت کش طبقے کے حقوق پر جارحانہ انداز میں حملہ آور ہونے میں کامیاب ہوئے اور مزدور تحریک کمزور ہوئی اور پھر اس کے جدلیاتی اثرات واپس پیپلز پارٹی پر مرتب ہوئے اور وہ مزدور تحریک کی پسپائی کے باعث شدید سیاسی پسپائی کا شکار ہوتے ہوئے نظر آئی۔ جہاں جہاں سوشل ڈیموکریسی کی قیادت نے حتیٰ کہ اپنے سوشل ڈیموکریٹک ایجنڈے پر ہی واپسی کی کوشش کی ہے وہاں ہمیں بڑے پیمانے کی ریڈیکلائزیشن دیکھنے کو ملی ہے جس کی حالیہ کلاسیکی مثال جریمی کاربن کی قیادت میں برطانوی لیبر پارٹی کی اور کسی حد تک امریکہ میں برنی سینڈر کی ہے کیونکہ محنت کش طبقہ عالمی سطح پر نیولبرل سرمایہ داری کی مسلط کردہ پالیسیوں سے جنم لینے والے حالات زیست سے بہت تنگ آچکا ہے لیکن اسے اپنے اظہار کے ذرائع نہیں مل پا رہے ہیں لیکن جہاں جہاں سوشل ڈیموکریسی کی لیڈرشپ قدرے ہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے نیولبرل ازم کو للکارنے کے لئے آواز بلند کرتی ہے، محنت کش عوام لپکتے ہوئے اس کی جانب بڑھتی ہے۔

بلاشبہ ذرائع پیداوار کی جدت اور نیولبرل ازم دونوں کا امتزاج سرمایہ دار طبقات کو وہ مادی حالات فراہم کر رہے ہیں کہ وہ کم سے کم مزدوروں سے، کم سے کم اجرتوں پر زیادہ سے زیادہ پیداوار کروا سکیں جس کے باعث محنت کش عوام کی اکثریت کو بیروزگاری، مہنگائی، غربت، لاعلاجی اور محرومی کی جس سطح پر دھکیل دیا گیا ہے، اس سے آگے صرف موت کی گہری کھائی اور وحشت ہی باقی رہ گئی ہے۔ اس لئے محنت کش عوام کے لئے اب یہ زندگی اور موت کا مسئلہ بن چکا ہے۔ اسی بنا پر اب ہمیں عالمی سطح پر مزدور تحریک ایک کروٹ لیتے ہوئے نظر آرہی ہے۔ فرانس کے محنت کش پنشن کی عمر میں اضافے کے خلاف سراپائے احتجاج ہیں۔ اسرائیل میں مظاہرے ہو رہے ہیں، برطانیہ میں نرسوں کی ہڑتالیں دیکھنے میں آئی ہیں، ایران مظاہروں کی لپیٹ میں ہے، جرمنی میں محنت کشوں کے مظاہرے اور ہڑتالیں پھوٹ پڑی ہیں اور اسی طرح سے دیگر ممالک میں اس استحصال اور جبر کے خلاف مزدور تحریک کروٹ بدلنا شروع ہو چکی ہے۔ پاکستان کے محنت کشوں کو بھی زندہ رہنے کے لئے لڑنا پڑے گا اور لڑنے کے لئے طبقاتی اتحاد ناگزیر ہے کیونکہ بنا متحد ہوئے کوئی لڑائی لڑی نہیں جا سکتی اور بنا نظریات کے کوئی لڑائی جیتی نہیں جا سکتی اس لئے متحد ہونے کے ساتھ ساتھ، محنت کشوں کو اپنے نظریات جنھیں سوشلزم کے نظریات سے جانا جاتا ہے، سے ناگزیر طور پر مسلح ہونا پڑے گا تبھی جا کر محنت کش عوام ایک فتح مند لڑائی لڑنے کے قابل ہو سکتے ہیں۔ اس لئے اس ملک کے محنت کشوں نے اڑسٹھ انہتر کے جس انقلاب کو ادھورا چھوڑا تھا اب انھیں آگے بڑھ کر اس کی تکمیل کرنا ہوگی اور اس ملک سے سرمایہ داری اور جاگیرداری کا مکمل اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خاتمہ کر کے ایک سوشلسٹ سماج کی بنیاد رکھنا ہوگی۔ اس لئے ہمیں اس لڑائی کو منظم کرنے کے لئے اپنے کچھ بنیادی مطالبات کو سامنے لانا پڑے گا۔

نجکاری کی بھینٹ چڑھائے گئے تمام اداروں سمیت دیگر تمام بڑے اداروں کو قومیا کر مزدوروں کے جمہوری کنٹرول میں دیا جائے۔

مزدور کی تنخواہ افراط زر سے منسلک کرتے ہوئے، ایک تولہ سونے کے برابر کی جائے اور کم سے کم اجرت ماہانہ ساٹھ ہزار روپے مقرر کر کے اس پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے۔

ٹھیکیداری نظام اور کنٹریکٹ شرائطِ ملازمتوں کا مکمل خاتمہ کیا جائے اور تمام کنٹریکٹ اور تھرڈ پارٹی ملازمین کو مستقل کیا جائے۔

تمام مالیاتی اداروں کو قومیا کر معیشت کی سمت کو عوامی اور سماجی ترقی کی جانب موڑا جائے۔

تمام تعلیمی اداروں اور ہسپتالوں کو قومیا کر ہر شخص کے لئے تعلیم اور صحت کی مفت فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔

ہر ادارے میں ٹریڈ یونین کامکمل حق دیا جائے اور تمام تعلیمی اداروں میں طلباء یونین کو بحال کیا جائے۔

تمام صنفی امتیاز کے حامل قوانین کا خاتمہ کیا جائے اور خواتین کو مردوں کے مساوی حقوق فراہم کئے جائیں اور مساوی اجرتیں دی جائیں۔

زرعی اصلاحات کے ذریعے تمام جاگیرداروں سے زمینیں لے کر مساوی بنیادوں پر کسانوں میں تقسیم کی جائیں۔

عالمی مالیاتی اداروں کی ایما پر محنت کش عوام پر مسلط کردہ تمام ٹیکسوں کا خاتمہ کر کے انھیں اس ملک کے سرمایہ داروں اور جاگیرداروں پر لاگو کیا جائے۔

بجلی، گیس اور ٹیلی فون/ انٹرنیٹ پر لگائے گئے تمام ٹیکسوں کو کم سے کم کر کے ان کی محنت کش عوام کو سستی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔

مذہبی اقلیتوں کے خلاف بنائے گئے تمام امتیازی قوانین کا خاتمہ کر کے انھیں برابر کا شہری درجہ دیا جائے۔

مذہب کو ریاست اور سیاست دونوں سے الگ کر کے اسے ہر فرد کی انفرادی حیثیت تک محدود کیا جائے۔

بے تحاشا دفاعی اخراجات میں کمی کی جائے اور اس سے بچنے والی رقوم کو اس ملک کی محنت کش عوام کی زندگیوں کو بہتر بنانے پر صرف کیا جائے۔