Share this
طبقاتی سماج میں جہاں معیشت طبقاتی کردار کی حامل ہے وہاں سیاست کا کردار بھی کلی طور پر طبقاتی ہے۔ کیونکہ کسی بھی سماج میں سیاست دراصل مروجہ معاشی نظام کا ہی ایک عکس ہوا کرتی ہے۔ معیشت پر جس طبقے کا قبضہ ہوتا ہے سیاست بھی اسی طبقے کے گھر کی لونڈی بن کر رہ جاتی ہے۔ آج نیولبرلزم کے عہد میں ہر گزرتے دن کے ساتھ نیو لبرل معاشی پالیسیوں کے ذریعے جس تیز رفتاری سے محروم طبقات کو معیشت کے دھارے سے باہر دھکیلا جا رہا ہے اسی برق رفتاری سے غریبوں پر سیاست کے دروازے بھی مکمل بند کیے جا رہے ہیں بلکہ بند کر دیئے گئے ہیں۔ پاکستان کی سیاسی تاریخی میں 1968-69 کی عوامی تحریک، عوام کی سیاست میں عملاً شمولیت کی اعلیٰ ترین مثال کے طور پر ہمیشہ زندہ رہے گی جب محنت کشوں، کسانوں اور نوجوانوں نے سیاست کو امراء کی بیٹھکوں اور محلات سے نکال کر سکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں، فیکٹریوں، صنعتوں، کھیتوں، کھلیانوں، بازاروں، قصبوں، دیہاتوں، گلیوں اور سڑکوں پر بکھیر دیا تھا۔ درحقیقت اگر یوں کہا جائے کہ محنت کش عوام نے اپنی تقدیر کو بدلنے کی غرض سے تقدیر کو اپنے ہاتھوں میں لے لیا تھا، تو شاید غلط نہیں ہوگا کیونکہ سیاست کا محور حکمران اشرافیہ کے محلات سے نکل کر عوامی مسائل اور انکے سنجیدہ نظریاتی حل تلاش کرنے اور اسکے حصول کے لیے عملی جدوجہد میں متحد ہونے کی شکل اختیار کر گیا تھا۔ یہ محنت کش عوام کی سیاسی و طبقاتی جڑت ہی تھی جس نے حکمران اشرافیہ اور ایوبی آمریت کو اقتدار سے بھاگنے پر مجبور کیا تھا۔ اس طبقاتی و سیاسی اٹھان کو سوشلسٹ انقلاب میں تبدیل کرنے والے تنظیمی و نظریاتی اوزار کے فقدان یا کمزوری کی وجہ سے مروجہ نظام کو جڑ سے نا اکھاڑا جا سکا۔ سیاسی و سماجی انقلاب ادھورا رہ گیا جو ہماری نسلوں کے کندھوں پر قرض کے بوجھ کی مانند آج بھی موجود ہے۔
عوامی دباؤ کا ہی ناگزیر نتیجہ تھا کہ 1970ء کے انتخابات میں محنت کش طبقات سے تعلق رکھنے والے سیاسی کارکنان کو پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ پارلیمانی سیاست میں حصہ لینے کا موقعہ میسر آیا۔ یہ وہ عہد تھا جب محنت کرنے والوں نے دولت والوں کو للکارا تھا اور سیاسی معرکے میں انکو شکست سے دوچار کیا تھا۔ یہ وہ عہد تھا جب سماج اور سیاست میں واضع طور پر دائیں اور بائیں بازو کی تفریق اور ضد موجود تھی۔ یہ نظریاتی تفریق ایک صحت مند سیاسی کلچر اور سیاسی عمل کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہوئے سیاسی نظریات کی ترویج کا سبب بن رہی تھی۔ تعلیمی اداروں میں طلباء یونین کی سیاسی و نظریاتی سرگرمیاں بہترین طالب علم راہنما پیدا کر رہی تھیں۔ ٹریڈ یونین کی سرگرمیاں مکمل طور پر مزاحمتی سیاست اور حقوق کے حصول کی جدوجہد کی نرسریاں تھیں۔ سیاسی جماعتوں میں بھی نظریات صف اول میں موجود تھے اور نظریاتی بحث و مباحثہ بہترین سیاسی کارکنوں کو جنم دے رہا تھا۔ سیاسی مکالمے میں گالی کی بجائے دلیل کو اہمیت حاصل تھی۔ سیاسی و نظریاتی شدت پسندی کی بجائے سیاسی و نظریاتی شعور پروان چڑھ رہا تھا۔ سماج کی تمام پرتوں میں طبقاتی شعور اور جڑت مزید پختہ ہو رہی تھی۔ یہی سیاسی شعور اور جڑت ایک نئے طبقاتی معرکے کے جنم کا سندیسہ دے رہی تھی۔ جس کا خوف سامراج اور بالادست طبقات کے سروں پر بھوت کی مانند منڈلا رہا تھا۔ اسی طبقاتی و سیاسی شعور اور جڑت کا قتل کرنے کی خاطر ضیا آمریت کی راہیں ہموار کی گئیں۔ آمریت کے سائے تلے سب سے پہلے طلباء یونین، ٹریڈ یونین اور مزاحمتی سیاست کو بزور ریاستی طاقت کچلا گیا۔ نظریاتی سیاست کی جگہ مفادات، لالچ اور خود غرضی نے لےلی اور سیاست میں سرمائے کا عمل دخل مزید شدت اختیار کرتا چلا گیا۔ نظریاتی و سیاسی کارکنوں کی بجائے ہر طرف خوش آمدیوں اور چاپلوسوں کی فوج تعمیر کی گئی۔ دلیل کا قتل کرتے ہوئے شدت پسندانہ رویوں کو ریاستی سرپرستی میں پروان چڑھایا گیا۔ سوال کرنے اور تحقیق کرنے کو جرم قرار دیتے ہوئے دولے شاہی نسل کی بنیاد رکھی گئی۔ اس دولے شاہی نسل کی افزائش میں دن بدن اضافہ جاری رہا اور آج ہمیں سماج کی ہر پرت میں یہ نسل جواں قد ہو کرکھڑی نظر آ رہی ہے۔ مروجہ سیاست نظریات سے عاری ہو چکی ہے جبکہ موقعہ پرستی، مفاد پرستی، چاپلوسی اپنی حدوں کو چھو رہی ہیں۔ سیاست کو گلی کوچوں سے پکڑ کر واپس ڈرائنگ روم کے ٹیبل پر کسی مہنگے شو پیس کی طرح سجا دیا گیا ہے۔ طلباء سیاست اور مزدور سیاست کو عملاً مفاد پرستی اور نظریاتی دیوالیہ پن کا شکار کر دیا گیا ہے۔ سرمائے کو سیاسی رشوت کے طور پر جان بوجھ کر سماج کی تمام پرتوں میں سرایت کروایا گیا تاکہ سماجی مزاحمت کو کندھ کیا جاسکے۔ یوں ایک منظم سازش کے تحت سیاست کو گالی بنا دیا گیا ہے تاکہ محنت کشوں اور انکی اولادوں کو سیاست سے دور رکھا جا سکے۔ پارلیمانی سیاست تو مکمل طور کروڑ پتیوں اور ارب پتیوں کے لیے جوئے کا کھیل بن کر رہ گیا ہے۔ جس کے پاس سرمایہ ہے وہی الیکشن لڑنے کا اہل ہو سکتا ہے جبکہ غریب کو صرف ووٹ دینے کے اہل قرار دیا گیا ہے۔ ووٹ بھی ایسا جو پہلے کسی مفاد کی غرض سے اپنی منشاء کے خلاف دیا جاتا ہے اور بعد میں بکسے سمیت چوری کر لیا جاتا ہے۔
ایک طرف پارلیمانی سیاست پر سیاسی کارکنوں کی بجائے سرمایہ داروں، جاگیرداروں اور انکی جاہل اولادوں کا قبضہ ہے وہ سرمایے کی طاقت پر پارٹیاں بدلتے رہتے ہیں اور ہر اقتدار کا حصہ بنتے رہتے ہیں تو دوسری طرف اہل دولت غیر منتخب طریقہ واردات سے سیاست اور اقتدار کا حصہ بن جاتے ہیں۔
گزشتہ تین دہائیوں کا جائزہ لیا جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ عوامی مسائل کو پس پردہ ڈالنے کی غرض سے “کرپشن” کی رام لیلیٰ تواتر سے سنائی جا رہی ہے۔ مگر صرف زبانی جمع خرچ کی حد تک اور یہاں بھی حاصل ضرب صفر ہی ہے۔ کرپشن تو سرمایہ دارانہ نظام کا لازمی جز ہے کرپشن اور استحصال کے بغیر یہ نظام برقرار نہیں رہ سکتا۔ لہذا یہاں بھی کوئی ریاستی ادارہ، محکمہ یا پارٹی کرپشن سے پاک نہیں۔ اسی لئے حکمران طبقات اور ریاست کے مختلف دھڑے کرپشن کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استمعال کرتے ہوۓ اپنے مالیاتی، سیاسی و ادارہ جاتی مقاصد کی تکمیل کی واردات ڈالتے ہیں۔ خاص کر گزشتہ دو انتخابات میں ریاستی اراروں کی بے پناہ اور کھلی مداخلت نے اس عمل کو مکمل سچ ثابت کیا ہے۔ جتنی مداخلت تیز ہوئی ہے اتنی ہی عوامی سطح پر یہ آشکار بھی ہوئی ہے، ہر زبان زدِ عام پر اسکا تذکرہ موجود ہے۔ گزشتہ تین دہائیوں کے دوران سیاست میں دائیں اور بائیں بازو کا جو معمولی فرق موجود تھا وہ بھی تیزی کے ساتھ ختم ہونے کی طرف گیا۔ سیاست سے محنت کش عوام کی مایوسی اور بے دخلی کا ناگزیر نتیجہ یہ نکلا کہ سامراجی نیو لبرل معاشی ایجنڈے کو یہاں بآسانی مسلط کر دیا گیا۔ کسی سیاسی پارٹی کے پاس نیو لبرل معاشی ایجنڈے یعنی آئی ایم ایف کے معاشی ایجنڈے کے علاوہ کوئی متبادل ایجنڈہ موجود نہیں ہے۔ پاکستان کی سیاسی اشرافیہ روز اول سے ہی کمزور اور نحیف رہی ہے کیونکہ یہاں سیاست ہمیشہ سے ہی ریاست کی مطیع رہی ہے۔ جس کسی نے بھی مخصوص دائرے سے نکلنے کی کوشش کی اسکو دائرے سے جزوی یا کلی طور پر خارج کر دیا گیا۔ یہ معاشی و سیاسی دائرے بھی ہمیشہ عالمی سامراج کی ایماء پر ہی کھینچے جاتے رہے ہیں۔ ان ریاستی دائروں کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ دوستیاں اور دشمنیاں مخصوص مفادات کو مدنظر نظر رکھتے ہوۓ پل بھر میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔ ریاست ایک لمحہ ایک سیاسی دھڑے سے دوستی کی پینگیں بڑھاتی ہے تو اگلے ہی لمحے یہ مصنوعی دوستی مصنوعی دشمنی میں بدل جاتی ہے۔ پہلے ادارے عمران خان کی نظر میں غیر جانبدار تھے اور اب باقی پارٹیاں غیرجانبداری کے سلوٹ مار رہی ہیں۔ اس ادلا بدلی کی واردات کے ذریعے حکمران طبقات اس نظام میں موجود دراڑوں کو کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پی پی پی اور ن لیگ پر کرپشن کا سٹیکر لگا کر بحران اور بدحالی کا ذمہ دار انکے ماضی کے دور اقتدار کو قرار دیا گیا۔ نام نہاد اور جعلی صادق و آمین کٹھ پتلی کو نجات دہندہ بنا کر پیش کیا گیا۔ پھر وقت نے ثابت کیا اور کر رہا ہے کہ بحران اور بدحالی کی وجہ افراد یا پارٹیاں نہیں بلکہ یہ بحران زدہ معاشی نظام ہے۔ عمران خان کے دور حکومت میں کرپشن، بحران اور بدحالی میں بے تحاشہ اضافہ دیکھنے کو ملا اور اب نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ ریاست ٹیکنیکلی دیوالیہ ہو چکی ہے۔ عمران خان نے اپنی نااہلی چھپانے کی غرض سے اپنی سیاست کو بھرپور مذہبی ٹچ بھی دیا جو جاری ہے اور ضیاء الحق کی طرح شعور کو ایک مخصوص خانے میں مقید کرنے کی پوری کوشش کر رہا ہے۔ عمرانی دور حکومت کے خاتمے کے پیچھے تین بنیادی محرکات کارفرما ہو سکتے ہیں۔
اول ریاستی اداروں کی آپسی اندرونی کشمکش، دوئم بد ترین معاشی بدحالی کے نتیجے میں خود رو عوامی تحریک کا خوف جسے ٹھنڈا کرنے کی غرض سے چہروں کی تبدیلی کی گئی، سوئم افغانستان کی بدلتی ہوئی صورتحال میں ریاست کے ایک دھڑے کا طالبان کی طرف زیادہ جھکاؤ جو خارجہ پالیسی پر اثر انداز ہو رہا تھا۔ ریاستی دھڑوں کی لڑائی آنے والے دنوں میں مزید شدت اختیار کر سکتی ہے جو موجودہ صورتحال کو یکسر لپیٹ کر مکمل آمرانہ شکل اختیار کر سکتی ہے، باوجود معاشی و دیگر مسائل کے اس کیفیت کو بھی رد از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ ریاستی خلفشار اپنی انتہاؤں کو چھو رہا ہے۔ جس عوامی غم و غصے کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی گئی ہے وہ آنے والے دنوں میں زیادہ شدت کے ساتھ بھڑک سکتا ہے کیونکہ عوام پر معاشی حملوں میں اضافہ اور شدت ریاست کے اپنے وجود کے لیے ناگزیر عمل بن چکا ہے۔ یہاں سری لنکا جیسی صورتحال بھی جنم لے سکتی ہے جس کے نتیجے میں فسطائیت اور بربریت کو بھی رد از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا۔ لیکن تاریخی مادیت اور جدلیاتی طریق کار ہمیں یہ بھی سیکھاتے ہیں کہ عوامی شعور کا ارتقائی سفر کبھی کبھار دہائیوں تک بہت سست رفتاری سے آگئے بڑھ رہا ہوتا ہے یا جمود کا شکار رہتا ہے لیکن کوئی ایک عمل کوئی ایک حادثہ اس مقداری سفر میں معیاری جست کا موجب بن کر دہائیوں کا سفر منٹوں میں طے کروا لیتا ہے اور یوں محنت کش عوام مروجہ قیادت سے آگے نکلتے ہوئے اپنی قیادت خود تراش لیتی ہے اور یہیں سے انقلاب کا آغاز ہوتا ہے۔ ان تاریخی لمحات کو انقلابی کیفیات میں بدلنے کی تیاری ہی محنت کش طبقے کی حقیقی نظریاتی سیاست کہلا سکتی ہے جس کی بحالی وقت کی اہم ضرورت ہے۔
حکمران طبقات کے پاس عوام کو ایک بار پھر بیوقوف بنانے کا اگلا حربہ پھر انتخابات کی واردات ہو سکتی ہے۔ لیکن یہاں اہم سوال یہ ہے کہ کیا کسی نئی حکومت کے پاس بحران کا بوجھ عوام کے کندھوں پر ڈالنے کے علاوہ کوئی متبادل حل موجود ہے؟ موجودہ کیفیت میں اس سوال کا جواب نفی میں ہے۔ لیکن محدود پیمانے پر دیکھا جائے تو پاکستان میں ایسی دستاویزات اور تجربات موجود ہیں جن کو باعمل بنانے سے مسائل کا حل ممکن ہے۔ یہ دستاویزات اور تجربات سوشلزم کے بنیادی رہنما اصولوں کو سرمایہ داری اور جاگیرداری کے سائنسی متبادل کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ یہ دستاویزات اور تجربات 1968-69 کے انقلابی عہد کی تخلیقات ہیں جن کی بنیاد پر پیپلز پارٹی کا قیام عمل میں آیا تھا۔ پیپلزپارٹی کا بنیادی منشور اور بنیادی دستاویزات ہی نیولبرل معاشی پالیسیوں کا متبادل ہوسکتا ہے۔ اس سیاسی و معاشی متبادل کو باعمل بنانے کے لیے محنت کش عوام کو سیاسی و نظریاتی بنیادوں پر منظم و متحرک ہونا اور کرنا پڑے گا۔ آمریتوں اور جمہوریتوں کے پے در پے تجربات اور انکی ناکامیاں محنت کش عوام کے اذہان میں کئی سنجیدہ سوالات ابھار رہی ہیں۔ عوام واقعات سے سیکھتے ہیں اور سیکھ رہے ہیں۔ عوام کو یہ ادراک ہے کہ غربت، مہنگائی، بیروزگاری، لاعلاجی، ظلم، جبر اور استحصال کا خاتمہ ہونا چاہیے لیکن انکو شاید پوری طرح یہ ادراک نہیں کہ ان تمام مسائل کا خاتمہ کیسے ممکن ہے۔ وہ مختلف شکلوں میں نجات حاصل کرنے کا اظہار بھی کرتے ہیں لیکن کامیابی حاصل نہیں ہو پاتی۔ اس وقت متبادل سیاسی و معاشی بیانیہ تخلیق کرنا اور اسکو عوام تک لے کر جانے کی تاریخی ذمہ داری سماج کی باشعور پرتوں کے کندھوں پر عائد ہوتی ہے۔ اگر سماج کی یہ باشعور پرتیں اپنا یہ تاریخی نظریاتی و انقلابی فریضہ نبھانے سے قاصر رہیں تو پھر لمحوں کی خطائیں شاید پھر سے صدیوں کو بھگتنی پڑ جائیں اور سماج بربریت کی لپیٹ میں آجائے۔ اس لئے ہم سب کو اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کی بھرپور کوششیں کرنی چاہیں۔