خوراک، قحط اور جنگ

Share this

تحریر: مائیکل رابرٹس
ترجمہ: الطاف بشارت۔

اگر کوئی چیز یہ ثابت کر سکتی ہے کہ قحط اور غذائی عدم تحفظ فطرت اور موسم کی تبدیلیوں کے بجائے انسان کے پیدا کردہ ہیں، تو وہ عالمی سطح پر چلنے والا موجودہ غذائی بحران ہے! جو لاکھوں لوگوں کو فاقہ کشی کی دلدل کے قریب لے آیا ہے.

روس یوکرائن جنگ نے خوراک کی عالمی ترسیل کی تباہی کو اجاگر کیا لیکن یہ وہ لاوا ہے جو جنگ سے کافی پہلے کا ابل رہا ہے. خوراک کی ترسیل کا سلسلہ تیزی سے عالمی ہوتا جا رہا ہے. 9-2008 کی عالمی کساد بازاری نے اس سلسلے کو درہم برہم کرنا شروع کر دیا تھا کیونکہ اس کی بنیاد ملٹی نیشنل فوڈ کمپنیوں پر تھی جو پوری دنیا کے کسانوں سے سپلائی کو کنٹرول کر رہی تھیں.ان کمپنیوں نے مانگ کو بڑھایا، کھاد کی سپلائی پیدا کی اور زیادہ تر قابل کاشت زمین پر غلبہ حاصل کیا۔ جب عظیم کساد بازاری رونما ہوئی تو یہ کمپنیاں منافع کھو بیٹھیں نتیجتاً سرمایہ کاری میں کمی آئی اور ‘عالمی جنوب’ میں خوارک پیدا کرنے والوں پر دباؤ بڑھ گیا.

تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتیں، مکئی پر مبنی بائیو ایندھن کی دھماکہ خیز مانگ، اعلیٰ شپنگ کی لاگت، مالیاتی منڈی کی قیاس آرائیاں، اناج کے کم ذخائر، کچھ بڑے اناج پیدا کرنے والے خطوں میں موسمیاتی رکاوٹیں اور تحفظ پسند تجارتی پالیسیوں میں اضافہ خوراک کی فراہمی کے ان بنیادی اصولوں میں دراڑوں کی ہمنوائی کر رہا تھا. وباء سے پہلے 2019 تک ترسیلِ خوراک کی ‘آب و ہوا’ طویل افسردگی میں تھی۔

عظیم کساد بازاری کے بعد خوراک کا بحران نسبتاً مختصر رہا لیکن اس کی پیروی 12-2011 میں خوراک کی قیمتوں میں ایک اور دھماکے نے کی۔ بالآخر، ’کموڈٹی بوم‘ ختم ہوا اور اشیاء خورد و نوش کی قیمتیں کچھ دیر کے لیے نسبتاً مستحکم رہیں۔ لیکن وبائی مرض نے عالمی سطح پر سپلائی چین کے منہدم ہونے، شپنگ کے اخراجات بڑھنے اور کھاد کی سپلائی بند ہونے کے ایک نئے بحران کو جنم دیا۔ اناج کی قیمتوں کے اشاریوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ قیمتیں 2021 میں پھر سے 2008 کی سطح پر پہنچ گئیں۔

دوسری عالمی جنگ کے بعد کورونا وبا نے بدترین معاشی بحران کو جنم دیا. دنیا ابھی تک اس بحران کے دم سے باہر نہیں نکل سکی. یہ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب بہت سی معیشتیں قومی آمدن کے مقابلے میں قرضوں کے بڑے بوجھ کا سامنا کر رہی ہیں۔ افریقہ سب سے کمزور خطہ ہے۔ شمالی افریقہ گندم کا ایک بڑا خالص درآمد کنندہ ہے، جس میں زیادہ تر روس اور یوکرائن سے آتا ہے، اس لیے اسے خاص طور پر شدید غذائی بحران کا سامنا ہے۔ سب صحارا افریقہ بنیادی طور پر دیہی ہے، لیکن اس کی بڑھتی ہوئی شہری آبادی نسبتاً غریب ہے اور درآمد شدہ اناج استعمال کرنے کا زیادہ امکان ہے۔ افریقہ کے بہت سے حصوں میں کسان شپنگ اور زرمبادلہ کے مسائل کی وجہ سے، مہنگی قیمتوں پر بھی کھاد تک رسائی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ حد سے زیادہ لاگت کسانوں کے منافع کو کم کر دے گی جو پیداوار میں اضافے کی کمی کا باعث بن سکتی ہے۔

تنازعات اور موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثرہ ممالک غیر معمولی طور پر کمزور ہیں۔ جنگ سے تباہ حال یمن کا زیادہ انحصار درآمد شدہ اناج پر ہے۔ شمالی ایتھوپیا زمین کے غریب ترین خطوں میں سے ایک ہے جو جاری تنازعات اور انسانی المیے کا سامنا کر رہا ہے۔ اور مڈغاسکر کو جنوری اور فروری میں یکے بعد دیگرے (tropical) منطقہ حارہ طوفانوں اور آندھیوں نے اپنی لپیٹ میں لے لیا، جس سے اس کا نظامِ خوراک برباد ہو گیا۔ افغانستان میں معیشت کی تباہی اور صحت کی بنیادی خدمات کی بربادی کے باعث بچوں کی شرح اموات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ فروری 2021 میں فوجی بغاوت کے بعد میانمار کی جی ڈی پی میں 18 فیصد کمی آئی ہے.

روس- یوکرائن جنگ نے خوراک کے تحفظ اور قیمتوں کی تباہی کو مزید بڑھا دیا۔ اناج کی عالمی برآمدات میں روس اور یوکرائن کا حصہ 30% سے زیادہ ہے، اکیلا روس عالمی کھاد کا 13% اور تیل کی برآمدات کا 11% فراہم کرتا ہے. اور یوکرائن دنیا کے سورج مکھی کے تیل کا نصف سپلائی کرتا ہے۔ مجموعی طور پر، یہ عالمی خوراک کے نظام کو رسد کا بہت بڑا جھٹکا ہے. یوکرائن میں طویل جنگ اور روس کی معیشت کی بڑھتی ہوئی تنہائی خوراک، ایندھن اور کھاد کی قیمتوں کو برسوں تک بلند رکھ سکتی ہے۔

یوکرائن پر روس کے حملے نے خوراک کی عالمی قیمتوں کے انڈیکس کو اب تک کی بلند ترین سطح پر پہنچا دیا ہے۔ اس حملے نے یوکرین کی بحیرہ اسود کی مصروف بندرگاہوں کو بے کار کردیا اور روس کی برآمدات کی صلاحیت کو روکتے ہوئے میدان کو بغیر کسی رکاوٹ کے کھلا چھوڑ دیا۔ وبائی مرض سپلائی چین کو گھیرنا جاری رکھے ہوا ہے، جب کہ موسمیاتی تبدیلی کیساتھ دنیا کے بہت سے زرعی خطوں کی پیداوار کو خشک سالی، سیلاب، گرمی اور جنگل کی آگ جیسے خطرات لاحق ہے۔

ورلڈ فوڈ پروگرام کے مطابق لاکھوں افراد کو فاقہ کشی کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔ کئی سالوں تک بڑے پیمانے پر کوئی تبدیلی نہ ہونے کے بعد 2020 میں ‘غذائی عدم تحفظ کا شکار’ سمجھے جانے والے افراد میں 118 ملین افراد کا اضافہ ہوا ہے۔

شدید بھوک کی سطح – ان لوگوں کی تعداد جو قلیل مدتی خوراک کی کھپت کی ضروریات کو پورا نہیں کر سکتے کی تعداد میں پچھلے سال تقریباً 40 ملین کا اضافہ ہوا۔ جنگ ہمیشہ سے ہی شدید بھوک کا بنیادی محرک رہی ہے اور اب روس یوکرائن جنگ مزید لاکھوں لوگوں کے لیے بھوک اور افلاس کے خطرے میں اضافہ کر رہی ہے۔

آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جارجیوا کیمطابق : “کئی ممالک میں قرضوں کے بحران پر خوارک کا بحران پیدا ہوتا ہے۔ 2015 کے بعد سے قرض کی تباہی میں یا اس کے قریب کم آمدنی والے ممالک کا حصہ 30 سے ​​60 فیصد تک دگنا ہو گیا ہے۔ بہت سے لوگوں کے لیے، قرض کی ریسٹریکچرنگ ایک اہم ترجیح ہے … ہم جانتے ہیں کہ بھوک دنیا کا سب سے بڑا حل طلب مسئلہ ہے۔ یہ اس بڑھتے ہوئے بحران کو حل کرنے کا فیصلہ کن وقت ہے۔”

لیکن مرکزی دھارے کی طرف سے اس تباہی کے حل یا تو ناکافی ہیں یا یوٹوپیائی ہیں. یا ناکافی بھی ہیں اور یوٹوپیائی بھی! ‘بڑے اناج پیدا کرنے والوں’ کے لیے یہ درخواست ہے کہ وہ لاجسٹک رکاوٹوں کو دور کریں، اسٹاک جاری کریں اور خوراک کی برآمد پر پابندیاں عائد کرنے کی خواہش کے خلاف مزاحمت کریں۔ تیل پیدا کرنے والے ممالک کو ایندھن، کھاد اور شپنگ کے اخراجات کو کم کرنے میں مدد کے لیے ایندھن کی سپلائی میں اضافہ کرنا چاہیے۔ اور حکومتوں، بین الاقوامی اداروں اور یہاں تک کہ نجی شعبے کو بھی خوراک یا مالی امداد کے ذریعے سماجی تحفظ کی پیشکش کرنی چاہیے۔

ان میں سے کوئی بھی تجویز عمل میں نہیں لائی جا رہی۔ وہ غریب ممالک جو لاکھوں بھوکے افراد کا ٹھکانہ اور غذائی قلت کا شکار ہیں بڑی سرمایہ دار طاقتوں کی طرف سے ان کی مدد کے لیے بہت کم کام کیا جا رہا ہے۔ گزشتہ ماہ کے آخر میں، یورپی کمیشن نے EU میں کسانوں کی مدد اور بلاک فوڈ سیکورٹی کے لیے اضافی اقدامات کے ساتھ ساتھ €1.5 بلین کے امدادی پیکج کا اعلان کیا۔ ورلڈ بینک گروپ، بین الاقوامی مالیاتی فنڈ، اقوام متحدہ کے عالمی خوراک پروگرام، اور عالمی تجارتی تنظیم کے رہنماؤں نے خوراک کے عدم تحفظ سے نمٹنے کے لیے فوری، مربوط کارروائی کا مطالبہ کیا۔ لفاظی شاندار مگر عمل ندارد۔

حقیقی مدد غریب ممالک کے قرضوں کو منسوخ کرنا ہوگی۔ لیکن آئی ایم ایف اور بڑی طاقتوں کی طرف سے جو کچھ پیش کیا گیا وہ قرض سروس معطلی ہے – قرض باقی ہیں لیکن ادائیگی میں تاخیر ہو سکتی ہے۔ یہ ‘ریلیف’ قابل رحم ہے۔ مجموعی طور پر، پچھلے دو سالوں میں، G20 حکومتوں نے صرف 10.3 بلین ڈالر کا فنڈ معطل کیا ہے۔ عالمی بینک کے مطابق، وبائی مرض کے پہلے سال میں، کم آمدن والے ممالک نے مجموعی طور پر 860 بلین ڈالر قرضہ کا ارتکاز کیا۔

اس کا دوسرا ‘حل’ یہ تھا کہ خصوصی ڈرائنگ رائٹس کے سائز کو بڑھایا جائے، بین الاقوامی رقم کو اضافی امداد کے لیے استعمال کیا جائے۔ آئی ایم ایف نے ایس ڈی آر پروگرام کے ذریعے 650 بلین ڈالر کی امداد دی تھی۔ لیکن SDRs کی تقسیم کے لیے ‘کوٹہ’ کے نظام کی وجہ سے، SDR کوٹہ غیر متناسب طور پر امیر ممالک کی طرف جھکا ہوا ہے: افریقہ کو جرمن بنڈس بینک کے مقابلے میں کم SDRs ملے!

میکرو اکنامک حالات اب خوراک کے فسادات کو ہوا دے رہے ہیں۔ ایک نئی رپورٹ بعنوان “Tapering in a Time of Conflict.” میں UNCTAD نے آگے کے منظرناموں کو کچھ یوں بیان کیا۔ کئی سالوں سے قرض بحران کا شکار سری لنکا کلیدی حرکیات کی ایک مفید مثال ہے۔ وبائی امراض کے دوران ترسیلات زر اور برآمدات گر گئیں، جس نے سیاحت کے اہم شعبے کو بھی متاثر کیا۔ ترقی کی سست روی نے بجٹ پر دباؤ ڈالا اور غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر ختم ہوگئے، جس سے کولمبو اب تیل اور خوراک کی درآمد کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔ قلت شدید ہے۔ الجزیرہ کی خبر کے مطابق، ستر کی دہائی میں پیدا ہونے والے دو افراد ایندھن کے لیے قطار میں کھڑے رہتے رہتے مر گئے۔ دودھ کی قیمتیں بڑھ گئیں، پیپر اور سیاہی کی کمی کے باعث اسکول کے امتحانات منسوخ کر دیے گئے۔ چونکہ سری لنکا 45 بلین ڈالر کا طویل مدتی قرضہ ادا کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے، جس میں سے اس سال 7 بلین ڈالر سے زیادہ واجب الادا ہیں. سری لنکا بشمول ارجنٹائن اور لبنان، جو کہ گندم کی درآمدات پر بہت زیادہ انحصار کرتے ہیں، ان ممالک میں شامل ہو چکا ہے جو وبائی امراض کے دوران ڈیفالٹ کر چکے ہیں.

سپلائی بڑھانے، خوراک کا ذخیرہ جاری کرنے اور یوکرائن میں جنگ ختم کروانے کی کوشش کرنے کے بجائے حکومتیں اور مرکزی بینک شرح سود میں اضافہ کر رہے ہیں جس سے غذائی قلت کے شکار غریب ممالک پر قرضوں کا بوجھ مزید بڑھ جائے گا۔ جیسا کہ میں نے پچھلی پوسٹس میں وضاحت کی ہے اور UNCTAD اتفاق کرتا ہے، مرکزی بینک کی شرح سود میں اضافہ سپلائی میں خلل کی وجہ سے پیدا ہونے والی افراط زر کو کنٹرول کرنے کے لیے کچھ نہیں کرتا، سوائے عالمی کساد بازاری اور ‘ابھرتی ہوئی منڈیوں’ میں قرض کے بحران کو بھڑکانے کے۔

بڑی طاقتوں کو بھوک سے مرتے ہوئے انسانوں کی فکر سے زیادہ بڑھتے ہوئے مظاہروں اور سیاسی ہلچل کی فکر ہے۔ جیسا کہ امریکی وزیر خزانہ جینٹ ییلن نے کہا: “مہنگائی دہائیوں کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔ خوراک اور کھاد کی بلند قیمتیں دنیا بھر کے گھرانوں پر دباؤ ڈالتی ہیں، خاص طور پر غریب ترین لوگوں پر. اور ہم یہ جانتے ہیں کہ خوراک کا بحران سماجی بے چینی کو جنم دے سکتا ہے۔”

1840 کی دہائی میں جب سرمایہ داری عالمی سطح پر غالب طرزِ پیداوار بن گئی تو مارکس نے صنعتی سرمایہ دارانہ خوراک کی پیداوار کی ایک “نئی حکومت” کی بات کی، جو Corns Law کی منسوخی اور 1846 کے بعد آزاد تجارت کی فتح سے منسلک ہے۔ اس نے اس “نئی حکومت” کو “برطانیہ میں قابل کاشت اراضی کے بڑے خطوں” کی تبدیلی کے ساتھ جوڑا، جو کہ مویشیوں کی افزائش اور انتظام میں ہونے والی پیشرفت کے گرد خوراک کی پیداوار کی “تنظیم نو” کے ذریعے اور فصل کی گردش کے ذریعے کھاد کی کیمسٹری میں متعلقہ پیش رفت سے منسلک ہے۔

خوراک کی سرمایہ دارانہ پیداوار نے خوراک کی پیداواری صلاحیت میں ڈرامائی انداز میں اضافہ کیا اور خوراک کی پیداوار کو ایک عالمی ادارے میں تبدیل کردیا۔ 1850 کی دہائی کے وسط میں، یہ رجحانات پہلے سے ہی عیاں تھے: برطانیہ میں استعمال ہونے والی تقریباً 25 فیصد گندم درآمد کی جاتی تھی، اس میں سے 60 فیصد جرمنی، روس اور امریکہ سے درآمد ہوتی تھی۔ لیکن اس نے پیداوار اور سرمایہ کاری کے باقاعدہ اور بار بار چلنے والے بحران کو بھی جنم دیا جس نے خوراک کے عدم تحفظ کی ایک نئی شکل پیدا کی۔ اب قحط اور بھوک پر فطرت اور موسم کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا– اگر کہیں ایسا ہو رہا ہے۔ یہ واضح طور پر عالمی سطح پر سرمایہ دارانہ پیداوار اور سماجی تنظیم کی عدم مساوات کا نتیجہ ہے۔ اور اس کا پسندیدہ شکار غریب ترین افراد ہیں۔ کارل مارکس نے ایک بار لکھا تھا کہ قحط نے ’’صرف غریب شیطانوں کو مارا‘‘۔

اور صنعتی فارمنگ کے ساتھ جانوروں کا بھی اتنا ہی ظالمانہ استحصال اور سلوک ہوا جتنا انسانوں کیساتھ۔ مارکس نے ایک غیر مطبوعہ نوٹ بک میں لکھا، ’’ناگوار!‘‘ اصطبل میں کھانا کھلانا جانوروں کے لیے “سیل جیل کا نظام” ہے۔ “ان جیلوں میں جانور پیدا ہوتے ہیں اور جب تک انہیں مار نہیں دیا جاتا وہیں رہتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ نظام افزائش نسل کے نظام سے جڑا ہوا ہے یا نہیں جو جانوروں کی ہڈیوں کا اسقاط کرکے انہیں محض گوشت اور چربی کے ایک بڑے ڈھیر میں تبدیل کرتا ہے، جبکہ اس سے قبل (1848 سے پہلے) جانور زیادہ سے زیادہ ہوا میں آزاد رہ کر متحرک رہتے تھے۔ کیا یہ سب آخر کار قوتِ حیات کے سنگین بگاڑ کا باعث بنے گا؟”

یہ ایک عالمی بحران ہے اور اس کے لیے عالمی سطح پر اس طرح کی کارروائی کی ضرورت ہے جس طرح وبائی امراض اور موسمیاتی بحرانوں سے نمٹنے کیلئے ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن اس طرح کی عالمی ہم آہنگی ناممکن ہے جب تک کہ عالمی فوڈ انڈسٹری چند ملٹی نیشنل فوڈ پروڈیوسرز اور ڈسٹری بیوٹرز کی ملکیت اور ان کے زیر کنٹرول. جبکہ عالمی معیشت ایک اور بحران کی طرف بڑھ رہی ہے۔