Share this
امجد رشید
پاکستانی ریاست اپنی تاریخ کے بدترین اور پُرانتشار عہد سے گزر رہی ہے۔ پاکستانی معیشت طویل عرصے سے سنگین بحرانات کا شکار ہے اور دن بدن معاشی بحران شدت اختیار کرتا چلا جا رہا ہے۔ ریاست کی معاشی اور سماجی پالیسیوں پر عام لوگوں کا اعتماد اٹھتا جا رہا ہے۔ جاری افراط زر اور مہنگائی نے عوام میں مایوسی اور بددلی کی کیفیت میں شدت پیدا کی ہے۔ اگر سابق عمران حکومت مہنگائی اور افراطِ زر پر قابو نہیں پاسکی تو نئی حکومت بھی ناکامی سے ہی دوچار ہے۔ عام لوگوں کی سطح پر مایوسی اور اضطراب کی یہ کیفیت معاشرے میں عمومی سیاسی بیگانگی میں مزید اضافے کا سبب بن رہی ہے۔مروجہ حکومتی نظام میں عوامی دلچسپی تیزی سے کم ہو رہی ہے اور لوگ تیزی سے یہ نتائج اخذ کر رہے ہیں کہ پاکستان میں حکومت جس کی بھی ہو، ان کے حالاتِ زندگی بہتر ہونے والے نہیں ہیں۔ (حالاتِ زندگی بہتر کیسے ہو سکتے ہیں، اس سوال کے جواب پر بہت بڑا ابہام بلا شبہ اپنی جگہ آج بھی بڑی شدت سے موجود ہے اور اکثر لوگ انفرادی طور پر اس کا جواب گو کہ ماضی بعید سے جوڑنے کی کوششیں بھی کرتے دکھائی دیتے ہیں لیکن اس میں حیرت کی بات اس لئے نہیں ہے کیونکہ جب کوئی کسی بند گلی میں داخل ہو جائے تو وہ پیچھے مڑ کر ضرور دیکھتا ہے حالانکہ پیچھے کا وہ راستہ اس کی منزل کو نہیں جا رہا ہوتا).
ہم سمجھتے ہیں کہ جس ملک میں مردم شماری کا انعقاد قاعدے اور مقررہ وقت پر آج تک نہ ہو سکا ہو، وہاں قابلِ عمل فیصلہ سازی اور میزانیہ سازی درست بنیادوں پر کیسے ممکن ہے؟ مملکت خداداد پاکستان کی میزانیہ سازی کی تاریخ میں شاید ہی کوئی سال ایسا ہو، جب بجٹ میں مقرر کردہ معاشی اہداف پورے ہو سکے ہوں۔ بجٹ تیاری کے دوران ایسے اہداف مقرر کئے جاتے ہیں جو محض اعداد وشمار کا گورکھ دھندہ ہوتے ہیں جن کا زمینی حقائق سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ بجٹ 2022-23 کو زیر بحث لانے سے قبل گزشتہ میزانیہ کا جائزہ لینا بہت ضروری ہے تاکہ ہم یہ سمجھنے کے قابل ہو سکیں کہ حکمران اشرافیہ مستقبل میں عوام پر کیا ظلم و ستم ڈھانے کی پالیساں نافذ کرنے والی ہے۔
اکنامک سروے کے مطابق مالی سال 2021-22ء کا جائزہ لیا جائے تو تجارتی خسارہ 58 فیصد اضافے کے ساتھ 43.3 ارب ڈالر اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 13.8 ارب ڈالر رہا ہے جس کی وجہ سے اس وقت ملکی تاریخ میں سب سے زیادہ مالیاتی خسارہ 2,565 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے۔ سرکاری قرضے 44,366 ارب روپے اور گردشی قرضے 2,470 ارب روپے تک پہنچ چکے ہیں۔ جبکہ زرمبادلہ کے ذخائر کم ہوکر 9.2 ارب ڈالر کی سطح تک پہنچ چکے ہیں۔ ذراعت کے شعبے میں دیکھا جائے تو گندم اور کپاس کی پیداوار میں کمی ہوئی لیکن چاول اور گنے کی پیداوار میں اضافہ ہوا ہے جبکہ دوسری طرف کپاس جیسی فائدہ مند اور قیمتی فصل کی پیداوار میں کمی واقع ہوئی۔ شوگر ملز مافیا نے کسانوں کو کپاس کی فصل چھوڑ کر گنا اُگانے پر مجبور کیا جس سے پاکستان، جو پہلے کاٹن کا بڑا عالمی ایکسپورٹر تھا اب اپنی ضروریات پوری کرنے سے بھی قاصر ہے۔
2021ء میں عالمی معیشت کے 5.7 فیصد کی شرح سے بڑھنے کا تخمینہ تھا لیکن روس کے یوکرائن پرحملے نے عالمی معیشت کو گہرے بحران سے دوچار کر دیا ہے جس کے نتیجے میں 2022ء میں صرف 2.9 فیصد شرح نمو کی توقع کی جا رہی ہے اور اندازہ ہے کہ آئندہ برس بھی عالمی معیشت کی شرح نمو کم و بیش یہی رہے گی۔ ترقی پذیر اور ترقی یافتہ ممالک اپنی شرح نمو کا ہدف 6.6 فیصد سے کم کر کے 3.4 فیصد پر لانے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ جبکہ حکومت نے اکنامک سروے میں شرح نمو 5.97 فیصد بتائی ہے اور بجٹ 2022-23ء میں جی ڈی پی کی شرح نمو کا ٹارگٹ 5 فیصد رکھا گیا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ عالمی معیشت گراوٹ کا شکار ہو، دنیا بھر کی معیشتیں بحران کا شکار ہوں اور عالمی جی ڈی پی کا نیا ٹارگٹ 3.4 فیصد ہو اور پاکستان میں جی ڈی پی کی شرح نمو 5 فیصد رہے؟ ایک طرف پاکستان کی صنعت اور زراعت دونوں ہی ترقی کی بجائے سست روی اور گراوٹ کا شکار ہیں تو دوسری طرف معیشت قرضوں پر چل رہی ہے اور عالمی مالیاتی اداروں کے چنگل میں پھنسی ہوئی ہے تو ایسے میں یہ ہرگز ممکن نظر نہیں آتا کہ پاکستان کی معیشت 5 فیصد کی شرح سے ترقی کر پائے گی۔ لہٰذا حکمران اشرافیہ کے اعدادوشمار اور ترقی کے یہ تمام وعدے یکسر جھوٹ اور جعل سازی پر مبنی ہیں اور انکا زمینی حقائق سے کوئی تعلق ڈھونڈنے سے دکھائی نہیں دیتا۔
اسی طرح افراطِ زر کو 11.3 سے 11.5 فیصد تک محدود رکھنے کا ناقابل فہم ہدف بھی مقرر کیا گیا ہے۔ اگر اپریل-مئی 2022ء میں افراطِ زر 13.37 تھی تو پٹرول اور بجلی پر سے سبسڈیز واپس لینے اور انکی قیمتوں میں مسلسل اضافے کے بعد بھی افراطِ زر بھلا کیسے ان مقرر کردہ اہداف تک ہی محدود رکھی جا سکتی ہے اسکے برعکس اس میں ہوشربا اضافہ ہوگا اور اس کے قوی امکانات ہیں کہ افراطِ زر 15 فیصد کی سطح سے بھی کئی زیادہ بڑھ جائے۔
مالی سال 2021-22ء کے بجٹ میں محصولات کا ہدف 6000 ارب روپے تھا، مئی 2022ء تک 5348 ارب روپے ہی حاصل ہو پائے تھے جبکہ جون 2022ء میں مزید 652 ارب روپے کی وصولیوں کا ٹارگٹ ہے۔ اگر ٹارگٹ پورا نہیں ہوتا تو اس کمی کو رواں مالی سال کے اہداف میں شامل کیا جائے گا۔ مالی سال 2022-23ء کے لئے محصولات کا ہدف 7004 ارب روپے رکھا گیا ہے۔اس ملک میں نہ صرف محصولات کا نظام فرسودہ ہے بلکہ جو محصولات حاصل بھی ہوتی ہیں اس میں بھی سارا زور بالواسطہ ٹیکسوں پر ہی ہوتا ہے جس کی وجہ سے مہنگائی میں ہوشربا اضافہ ہوتا ہے اور تمام بوجھ غریب عوام پر ہی ڈالا جاتا ہے۔ پاکستان میں اشرافیہ اور حکمران طبقہ ٹیکس دینا جرم سمجھتا ہے۔ اس وقت جی ڈی پی کا صرف 11 فیصد ٹیکس سے حاصل ہوتا ہے جو کہ دنیا کے بیشتر ممالک میں ٹیکس وصولی کے حوالے سے سب سے کم ترین شرح ہے۔ حکمران طبقہ ٹیکس دینے کے لئے تیار نہیں اور نہ ہی معیشت کو دستاویزی شکل دینے پر آمادہ ہے۔ محصولات کی مد میں جو تھوڑا بہت ریونیو اکٹھا ہوتا ہے اس کا تین چوتھائی حصہ قرضوں کی مد میں سود کی ادائیگیوں، دفاعی اخراجات، سیکیورٹی کے مسائل کی نظر ہو جاتا ہے جبکہ ایک چوتھائی حصے سے بھی کئی کم تعلیم، صحت اور دیگر ترقیاتی منصوبوں کی مد میں خرچ ہوتا ہے۔ مالی سال 2021-22ء میں پنشن اور دیگر اخراجات سمیت دفاعی بجٹ 2300 ارب روپے رہا۔ جبکہ وفاقی حکومت کے اخراجات 479 ارب روپے، تعلیم پر وفاقی/صوبائی اخراجات 663 ارب روپے اور صحت پر وفاقی /صوبائی اخراجات 610 ارب روپے رہے۔ ان سب اخراجات کو ملایا جائے تو 1,750 ارب روپے بنتے ہیں جبکہ دفاعی اخراجات 2300 ارب روپے کے ہیں۔مشہور ماہرِ معیشت ڈاکٹر قیصر بنگالی کے بقول ریاست کو اس وقت دفاع کی مد میں ہونے والے(Non combat Expenditures)کو مکمل طور
پر ختم کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ پورے ملک میں پھیلی چھاؤنیوں کا عام آدمی کی زندگیوں سے کوئی تعلق نہیں ہے،ان اخراجات کو روزگار کی فراہمی سے متعلق منصوبوں تعلیم اور صحت کی مد میں خرچ ہونا چاہیے لیکن سول و ملٹری اشرافیہ اپنے مفادات میں کمی لانے کے لئے ہرگز تیار نہیں اور سارا معاشی بوجھ محنت کش عوام پر ڈالا جاتا رہا ہے اور مزید خوفناک اور ناقابلِ برداشت حد تک ڈالا جا رہا ہے۔
مجموعی طور پر پچھلے سال کے جو بھی اہداف لئے گئے تھے ان میں سے زیادہ تر میں کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہو سکی جبکہ دوسری طرف لوگوں کا معیارِ زندگی دن بدن گرتا جا رہا ہے۔ غربت، بے روزگاری، مہنگائی میں خوفناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ اس بگڑتی ہوئی معاشی صورتحال اور اسکے تنزلی کے رجحان کے اندر آئی ایم ایف کی کڑی شرائط کے بوجھ تلے دب کر حکمران طبقے کی جانب سے یہ بجٹ 2022-23ء پیش کیا گیا ہے۔ وزیرخزانہ کی بجٹ تقریر میں بنیادی معاشی کمزوریوں پر قابو پانے کیلئے کسی معاشی پروگرام اور ویژن کا کوئی نشان تک نہیں ملتا۔ مالی سال 2022-23ء کے بجٹ کا کل حجم 9502 ارب روپے ہے۔ ٹیکس کی مد میں 7000 ارب روپے کا ہدف رکھا گیا ہے جبکہ نان ٹیکس وصولیوں کا تخمینہ 2000 ارب روپے رکھا گیا ہے۔ واضح رہے کہ عوام سے بالواسطہ ٹیکس کی صورت میں 4431 ارب روپے نچوڑے جائیں گے جبکہ براہ راست ٹیکس کا تخمینہ 2573 ارب روپے ہے۔ اس سال بھی حسبِ معمول چاہے مصنوعی جنگی حالات ہوں یا نام نہاد امن و امان کی صورتحال، دفاع کی مد میں اضافہ کرتے ہوئے 2500 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ جہاں عوامی فلاح و بہبود سے متعلقہ شعبوں میں خوفناک کٹوتیاں کی گئی ہیں اس کے برعکس دفاع کی مد میں اس سال بھی بجٹ میں 6 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔عوامی فلاح وبہبود کے منصوبوں (PSDP) میں 11 فیصد، صحت کے منصوبوں اور پروگرامز میں 31 فیصد، جبکہ تعلیم کے بجٹ میں 1.5 فیصد اور ہاوسنگ کے بجٹ میں 77 فیصد کٹوتی کی گئی ہے۔ سرمایہ دارانہ ریاستوں کا المیہ یہی ہے کہ بحران کا تمام بوجھ محنت کش عوام پر ڈال دیا جاتا ہے اور ترقی کے زیادہ سے زیادہ ثمرات بالادست طبقات کی تجوریوں میں ہی ڈالے جاتے ہیں۔ جیسے ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں کہ مالی سال 2022-23ء میں محصولات کی مد میں 7000 ارب روپے کا ہدف رکھا گیا ہے۔ اگر ٹیکس نظام کی وصولیوں کے عمل کو دیکھا جائے تو اس کی فرسودگی اور ناقص کارکردگی سے ہر کوئی آگاہ ہے مذکورہ نظام کی فرسودگی کے باعث خزانے کو محصولات کی آمدن میں بڑے پیمانے پر بدعنوانیوں کی وجہ سے نقصان
اُٹھانا پڑ رہا ہے۔ جبکہ ٹیکس لگانے میں بھی اس بات کا خاص خیال رکھا جاتا ہے کہ امیر اور دولت مند کو پریشانی نہ ہو۔ یہاں کا سرمایہ دار ٹیکس دینے نہیں لینے والوں میں شامل ہے۔ ملک کے مجموعی ٹیکس ریونیو کا 85 سے 90 فیصد بالواسطہ ٹیکسوں کے ذریعے عوام کا خون پسینہ نچوڑ کر حاصل کیا جاتا ہے۔7000 ارب روپے کی محصولات کے ہدف میں سے 4000 ارب روپے عالمی مالیاتی اداروں سے لئے گئے قرضوں اور سود کی ادائیگیوں کی صورت میں واپس کرنا ہوگا جبکہ 2500 ارب روپے دفاع پر خرچ ہونگے، گویا کل ٹیکس کا 92 فیصد قرض اور سود کی ادائیگوں اور دفاع پر خرچ ہوجائے گا۔
اس بجٹ میں عوام کو دی جانے والی سبسڈیز کی مد میں صرف 700 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ اگر اس کو طبقاتی بنیادوں پر دیکھا جائے تو اس کا بڑا حصہ تقربیاً 92% فیول اور انرجی سیکٹر کو دیا جا رہا ہے جس میں پھر سب سے زیادہ حصہ نجی بجلی پیدا کرنے والے کارخانوں (IPP’s) کے مالکان اور سرمایہ داروں کی تجوریوں میں جائے گا، جبکہ 85 فیصد ٹیکسٹائل سیکٹر، بڑے Exporters اور فارما سیوٹیکل کمپنیوں کے مالکان کو دیا جائے گا، جبکہ عام عوام کیلئے یوٹیلیٹی سٹورز کو دی جانے والی سبسڈیز کی مد میں صرف 7 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔
حکمرانوں نے بجٹ میں مستقبل کے جو سہانے سپنے دکھائے ہیں اورخوشحالی کے جو دعوے کئے ہیں، زمینی حقائق اس کے بالکل برعکس ایک بھیانک صورتحال کا منظر پیش کر رہے ہیں۔آئی ایم ایف سے 01 بلین ڈالر کے قرض کے حصول کیلئے جن سخت شرائط پر معاہدہ کیا گیا ہے اُس نے عوام کو فاقوں پر مجبور کر دیا ہے اور تیل عوام کی ہڈیوں سے نکالا جا رہا ہے۔ تیل اور بجلی پر دی جانے والی سبسڈیز کے خاتمے سے موجودہ حکمرانوں نے 60 دنوں کے اندر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں تیسری دفعہ اضافہ کیا اور ان مصنوعات کی قیمتوں میں مزید بڑھوتری کو رد از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ان اضافوں نے عوام پر مہنگائی کا ایک مزید بوجھ ڈال دیا ہے جو پہلے سے ہی غربت کی چکی میں پس رہی ہے۔ عمران خان روس سے سستے داموں تیل خریدنے کے دعوے تو کرتے رہے ہیں لیکن ایسی کوئی دستاویز موجود نہیں جہاں روس نے پاکستان کو سستا تیل فراہم کرنے کی پیش کش کی ہو۔ بھارت اور چین روس سے تیل خرید رہے ہیں لیکن دونوں ممالک اپنے معاشی حجم کی طاقت کے بل بوتے پر کسی حد تک کچھ ایسے آزاد فیصلے ضرور کر سکتے ہیں جس کا پاکستان جیسی عالمی مالیاتی اداروں کے قرضوں کے شکنجوں میں پھنسی ریاست کے لئے تصور کرنا بھی شاید محال ہے کیونکہ بھارت کے 640 ارب ڈالر زرمبادلہ کے مقابلے میں پاکستان کو 9 ارب ڈالر کے زخائر کے ساتھ یہ سہولت میسر نہیں ہو سکتی، اس کے ساتھ ساتھ روس کے کروڈ تیل کو ریفائن کرنے کیلئے پاکستانی ریاست کی بہت ہی محدود صلاحیت اس کے لئے ایک دوسرا بڑا مسئلہ ہے۔آنے والے دنوں میں بجلی کی قیمتوں میں مزید 20 فیصد اضافہ کیا جائے گا۔فرنس آئل کی ریکارڈ امپورٹ اور اس سے مہنگی بجلی پیدا کرنے سے کرنٹ اکاونٹ اور تجارتی خسارے میں اضافہ ہوگا۔ 1994ء میں جب بجلی پیدا کرنے والے نجی کارخانوں کو لایا گیا تو یہ کہا گیا تھا کہ بیرونی سرمایہ کاری کے ذریعے بجلی کے شعبے کو ترقی دی جائے گی لیکن درحقیقت ان سے جو معاہدے کئے گئے تھے ان سے نہ صرف بجلی کی قیمتوں میں اضافہ ہوا بلکہ ان معاہدوں کی رو سے اگر کارخانے کے سرمایہ دار انہیں نہیں بھی چلائیں گے تو بھی ان کے منافعوں میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔ حکمرانوں نے اپنے چہیتے سرمایہ داروں کو فائدہ پہنچانے کیلئے اور اپنا کمیشن حاصل کرنے کیلئے بجلی کی ترسیل اور پیداوار کے نظام کو پرائیویٹائز کیا۔ سستے ذرائع جن میں ہائیڈرل، ونڈ اور کوئلے کی مدد سے ریاستی اداروں کے ذریعے بجلی پیدا کرنے کی بجائے، بجلی پیدا کرنے والے نجی کارخانوں (IPP’s) اور سرمایہ داروں کو نوازا گیا جس کے نتیجے میں بجلی کے شدید بحران نے جنم لیا۔ عالمی مارکیٹ میں فرنس آئل کی قیمتیں بڑھنے سے بجلی کی پیداوار میں کمی اور لاگت میں اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان میں فرنس آئل سے بجلی بیس روپے فی یونٹ، کوئلے سے چھ روپے یونٹ اور ہائیڈرل سے صرف چار روپے فی یونٹ پیدا ہوتی ہے۔ آئی پی پیز سے مہنگی ترین بجلی خریدنے کے باوجود جہاں بجلی چند گھنٹوں کیلئے ہی دستیاب ہو پائے، وہاں کمزور اور تاخیر زدہ صنعت میں ترقی کیسے ممکن ہے اور اگر صنعتی ترقی نہیں ہے تو آپ کو ہر چیز بیرونی منڈیوں سے درآمد کرنا پڑتی ہے جس سے آپ کے امپورٹ میں اضافہ اور ایکسپورٹ میں مسلسل کمی واقع ہوتی ہے اور اس ریاست کو اپنے امپورٹ بلز کی ادائیگیوں کے لئے ڈالرز کی ضرورت پڑتی ہے جس کے حصول کے لئے اسے عالمی مالیاتی اداروں کے دروازوں پر دستک دینے پر مجبور ہونا پڑتا ہے اور یہ عمل بڑھتے بڑھتے اب اس سطح پر پہنچ چکا ہے جہاں اس ریاست پر براجمان حکمران اشرافیہ کو اس ریاست کی معیشت کا پہیہ چلانے کے لئے عالمی مالیاتی اداروں کی ہر کڑی سے کڑی شرط کو ماننا پڑتا ہے اور اس وقت یہ عمل اب ایک خوفناک شکل اختیار کر چکا ہے۔
ایک طرف اگر صنعت کی یہ کیفیت ہے تو دوسری طرف زراعت کا شعبہ بھی گہرے بحران کا شکار ہے۔ پاکستان کھانے پینے کی زرعی اجناس کی امپورٹ پر تقریباً 17 ارب ڈالر سالانہ خرچ کر رہا ہے۔اس سال پاکستان کو گندم کے بحران کا سامنا ہے اور ایک تخمینے کے مطابق اسے کم از کم 30 لاکھ ٹن گندم برآمد کرنا پڑے گی۔ ایک زمانے میں پاکستان ان تمام زرعی اجناس کو ایکسپورٹ کرتا تھا اور آج انہیں امپورٹ کررہا ہے اس کی وجہ ایک طرف تو پانی کا بحران ہے جبکہ دوسری طرف زراعت کے شعبے کو ترقی نہیں دی گئی اور نہ ہی جدید ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے اسے جدید خطوط پر استوار کیا گیا۔
پٹرولیم مصنوعات اور زرعی اجناس کی قیمتوں میں اضافے سے مہنگائی میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے جو کہ اس وقت 100فیصد سے زیادہ ہے جبکہ دوسری طرف تنخواہوں میں محض 15فیصد اضافہ افراط زر کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر ہے۔ بلاشبہ تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ اپنی جگہ اہمیت رکھتا ہے لیکن اس میں بھی طبقاتی فرق نمایاں ہے کیونکہ اس اضافے کے زیادہ ثمرات بھی پہلے سے مراعات یافتہ سول و ملٹری بیوروکریسی کو ہی ملتے ہیں۔جبکہ عام محنت کشوں، دیہاڑی دار مزدوروں اور کسانوں کو تو اس سے کوئی فائدہ نہیں پہنچ پاتا جس کی وجہ سے غریب لوگ مہنگائی سے تنگ آکر خود کشیاں کرنے اور اپنے بچوں تک کو بیچنے پر مجبور ہیں۔حکمرانوں کے جھوٹ دراصل سرمایہ داری کے مصنوعی پن، اس کی سٹہ بازی اور ترقی سے حقیقی ناطہ ٹوٹنے کی ایک واضح دلیل ہے۔ اسی وجہ سے اس وقت بہتر معیشت دان وہ ہے جو سب سے زیادہ جھوٹ بول سکتا ہے۔
آنے والے دنوں میں مہنگائی میں مزید اضافہ ہوگا، نئے روزگار کے مواقعے پیدا ہونا تو درکنار، نجکاری کے نام پر پہلے سے روزگار پر موجود لاکھوں لوگوں کو بے روزگار کر دیا جائے گا۔ صحت کی سہولیات کی عدم موجودگی، ٹوٹی سڑکوں پر حادثات، گرمی، سماجی انتشار اور سب سے بڑھ کر بھوک سے ہزاروں لاکھوں لوگ زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ سرمایہ داری میں کوئی بھی بجٹ اب اس سماج کو بہتر معیار زندگی کی ضمانت فراہم نہیں کرسکتا۔ حکمرانوں کے یہ تمام دعوے کہ وقت گزرنے کے ساتھ مسائل میں کمی واقع ہو گی، سفید جھوٹ ہیں اس کے برعکس نیو لبرل سرمایہ داری کے تحت ان مسائل میں شدت سے اضافہ ہوگا۔
اس وقت ایک ایسے متبادل معاشی پروگرام کو تخلیق کرنے کی اشد ضرورت ہے جو معیشت کو اقلیت کے منافعوں کے حصول کی بجائے، اکثریتی عوام کی ضروریات کو پورا کرنے کی مکمل ضمانت فراہم کرے۔ جس میں علاج، تعلیم، صحت، انصاف، روٹی، کپڑا اور مکان پر صرف ایک طبقے کا حق نہ ہو بلکہ تمام لوگوں کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے حق کو نہ صرف تسلیم کیا جائے بلکہ اسے عملی شکل دینے کا پورا میکینزم واضح کیا جائے اور اسی پروگرام کے گرد اس سماج کو اپنی قوت محنت سے زندگی بخشنے والی محنت کش عوام کی تمام پرتوں، نوجوانوں، کسانوں، خواتین اور دیگر ہر محروم پرت کو طبقاتی بنیادوں پر منظم کرتے ہوئے ایک تحریک کے ذریعے سرمایہ داری نظام کے خاتمے کیلئے جدوجہد کو منظم کیا جائے۔ یہ سب ممکن ہے لیکن اس کیلئے سماج کی باشعور پرتوں کو اپنا ہر اول دستے کا تاریخی کردار اور ذمہ داری ادا کرنا ہوگی ورنہ اس سماج کو دھشت، وحشت اور انارکی کی لپیٹ میں آنے سے کوئی طاقت کوئی ریاست نہیں روک پائے گی۔