Share this
شبانہ کوثر
سال 1910ء میں محنت کش خواتین کی دوسری عالمی کانفرنس کا کوپن ہیگن میں انعقاد کیا گیا جس میں جرمنی کی ایک خاتون مارکسسٹ رہنما کلارا زیٹکن نے ایک تجویز پیش کی کہ اجرتوں میں اضافے، حالات کار کو بہتر بنانے، اوقات کار کو کم کرنے، صنفی امتیاز کے خاتمے اور بحیثیت مجموعی خواتین کو درپیش دیگر تمام مسائل کے خلاف محنت کش خواتین و حضرات کو منظم کرنے کی غرض سے اس دن کو عالمی محنت کش خواتین دن کے طور پر عالمی سطح پر ہر سال باضابطہ طور پر منایا جائے۔ اس کانفرنس میں سترہ ممالک سے ٹریڈ یونین ، سوشلسٹ پارٹیوں اور محنت کش خواتین تنظیموں کی نمائندہ مندوبین شریک تھیں جنھوں نے اس تجویز کو متفقہ طور پر منظور کر لیا۔ اس سے اگلے ہی سال 08 مارچ 1911ء کو پہلے عالمی یوم خواتین کا باضابطہ آغاز جرمنی، ڈنمارک، آسٹریلیا، سویٹزرلینڈ اور دیگر چند ممالک میں مظاہروں کی شکل میں کیا گیا جن میں تقریباً ایک ملین سے زائد مرد و خواتین نے ایک دوسرے کے شانہ بشانہ شرکت کی۔ یہ مظاہرے ایک طرف محنت کش خواتین کی کانفرنس میں لئے گئے اس متفقہ فیصلے کا پہلا دلیرانہ عملی مظاہرہ تھا لیکن عین اسی وقت یہ ان بھیانک حالات کار، طویل اوقات کار، طبقاتی استحصال کے ساتھ ساتھ صنفی امتیاز اور صنفی بینادوں پر برپا ہونے والے دوہرے طبقاتی استحصال کے خلاف ایک جراتمندانہ عملی مظاہرہ بھی تھا۔
اسی طرح روس میں فروری 1917ء کے انقلاب کا آغاز روسی خواتین نے اس وقت کیا تھا جب 23 فروری (08 مارچ 1917ء) کو پیٹروگراڈ میں مختلف پس منظر سے تعلق رکھنے والی ہزاروں خواتین روٹی اور سپاہیوں کے خاندان کے لئے راشن میں اضافے جیسے مطالبات کے ساتھ گلی کوچوں میں باہر نکل آئیں اور اس سے انھوں نے شاندار مزاحمت کا باضابطہ آغاز کیا تھا۔
فروری انقلاب جو دراصل روسی محنت کش عوام نے صرف اپنے تہیں ہی برپا کیا تھا، وہ زار شاہی کا خاتمہ کرنے میں تو کامیاب ہو گیا لیکن فیصلہ کن انداز میں ذرائع پیداوار کے ملکیتی رشتوں پر سے نجی ملکیت کا خاتمہ کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا لیکن بعد ازاں روسی سوشل ڈیموکریٹک لیبر پارٹی کے بالشویک دھڑے کی قیادت میں روسی محنت کش عوام اکتوبر انقلاب کی شکل میں ایک ایسا انقلاب برپا کرنے میں ضرور کامیاب ہو گئی جس کے نتیجے میں روسی محنت کش خواتین کی زندگیوں میں بالخصوص اور دنیا بھر کی خواتین کی زندگیوں میں بالعموم شاندار اثرات مرتب ہوئے ۔ روسی محنت کش خواتین کی زندگیوں میں حقیقی تبدیلیاں رونما ہوئیں جبکہ دنیا بھر کی خواتین محنت کشوں کی زندگیوں میں روسی انقلاب کے اثرات کے باعث خاطر خواہ تبدیلیاں رونما ہوئیں لیکن یہاں ہم مختصراً ان تبدیلیوں کا ذکر کریں گے جو روسی خواتین کی زندگیوں میں برپا ہوئیں تاکہ ہم ان تمام تجربات کی روشنی میں محنت کشوں کی جدوجہد کے آئندہ کا نظریاتی و سیاسی خاکہ تشکیل دینے میں کامیاب ہو سکیں اور اس کے ساتھ ساتھ جدوجہد کا لائحہ عمل مرتب کرنے میں کامیاب ہو سکیں۔
انقلاب روس کے بعد تمام صنفی اور دیگر امتیازی قوانین کا مکمل خاتمہ کیا گیا۔مشترکہ باروچی خانے، مشترکہ لانڈریاں، ڈے کئیر مراکز بنائے گئے تاکہ خواتین کو ایسے کاموں سے نجات دلائی جا سکے جو انھیں بطور صنف جکڑے ہوئے تھے۔ اسی طرح زچگی کے دوران خواتین کے ساتھ ساتھ مردوں کو بھی چھے ماہ کی چھٹی دی جائے لگی تاکہ وہ خواتین کی اچھی طرح سے دیکھ بھال کر سکیں۔ بچوں کے نام کے ساتھ والد یا والدہ کے نام کے استعمال پر مکمل آزادی دی گئی۔اس طرح ایسے اقدامات کی ایک طویل فہرست ہے لیکن مختصراً یہ کہا جائے تو کافی ہو گا کہ عورت کو ایک جنس سے نکال کر طبقاتی انسانی تاریخ میں پہلی مرتبہ نہ صرف بطور ایک مساوی انسان کے پورا حق دیا گیا بلکہ اسے مکمل عمل جامہ پہنایا گیا۔ روسی انقلاب کے انھی اقدامات کے باعث دنیا بھر کی محنت کش خواتین و حضرات اپنی تاریخ کی فیصلہ کن جدوجہد کے عمل میں داخل ہوئے اور اس کے نتائج بھی برآمد ہوتے رہے لیکن 1991ء میں روسی انقلاب کے انہدام کے بعد سرمایہ دار دنیا نے پھر اپنا ننگا استحصالی کردار ظاہر کرنا شروع کردیا جس کے نتیجے میں آج امارت اور غربت کے درمیان خلیج بلند ترین سطح پر ہے تو صنفی امتیاز اور محنت کش خواتین کا دوہرا طبقاتی استحصال بھی شدت اختیار کر چکا ہے۔ لیکن اس میں ایک فرق کو ملحوظ خاطر رکھنا ضروری ہے کہ ایک طرف سرمایہ دار حکمران طبقے کی خواتین ہیں اور دوسری طرف محنت کش طبقے کی خواتین ہیں اس لئے اس لبرل این جی اوٹک پروپیگنڈے کا محنت کش خواتین اور محنت کش طبقے کی خواتین سے کوئی تعلق نہیں جس کے ذریعے محنت کش خواتین کی حقیقی طبقاتی لڑائی کو خواتین بمقابلہ مردوں کے بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ امیر، سرمایہ دار، جاگیردار اور حکمران طبقے کی خواتین کو ہرگز ان مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا جن مسائل کا سامنا محنت کش طبقے کی خواتین کو کرنا پڑتا ہے۔ محنت کش طبقے کی خواتین ایک طرف تو دوہرے طبقاتی استحصال کا شکار ہیں جبکہ دوسری طرف انھیں صنفی امتیاز اور استحصال کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے.
پاکستان میں محنت کش خواتین کو اپنے کام کی جگہوں، تعلیمی اداروں اور دیگر شکلوں میں جنسی ہراسانی کا متواتر سامنا رہتا ہے۔ انھیں غیرت کے نام پر قتل کر دیا جاتا ہے، کم عمری میں زبردستی کی شادیاں کر دی جاتی ہیں، گھریلو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے، زندہ جلا دیا جاتا ہے۔ خاندانی رقابتوں میں صلح کے نام پر بچیوں کو قربانی کے بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے۔ ونی اور کاری کے الزامات لگا کر قتل کر دیا جاتا ہے۔ چھوٹی چھوٹی معصوم بچیوں کو زیادتی کا نشانہ بنا کر قتل کر دیا جاتا ہے۔ یوں یہ سماج محنت کش طبقے کی خواتین اور محنت کش خواتین کے لئے مسائل کی آماجگاہ ہے جو کسی جہنم سے کم نہیں ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آیا صرف عورت بمقابلہ مرد کے ذریعے اس جہنم نما زندگی سے نجات ممکن ہے تو سوال نفی میں ہے کیونکہ اگر ایک طرف محنت کش عورت کا استحصال ہے تو دوسری طرف محنت کش مرد کا استحصال ہے گوکہ استحصال کے زیادہ خوفناک اثرات آکر عورت پر اس لئے منتج ہوتے ہیں کیونکہ گھر کا کچن اس نے سنھبالا ہوتا ہے اور مرد محنت کش کا استحصال جب کم آمدن کی شکل میں برآمد ہوتا ہے اور افراط زر یعنی مہنگائی جب مہینے کا گزارہ مزید مشکل کر دیتی ہے تو اس مرد محنت کش کا تمام غصہ بھی کچن سنبھالنے والی اسی عورت پر ہی نکلتا ہے لیکن مسائل کے پیچھے اصل وجہ اس مرد کا غصہ نہیں بلکہ وہ نظام ہے جس نے عورت اور مرد کو ایک حسین رشتے کی بجائے ایک تلخ اور مجبوری کے رشتے میں جکڑ کر رکھ دیا ہے۔ ہم نے دیکھا کہ جو خاندان قدرے خوشحال ہوتا ہے وہاں ایسے مسائل پر تلخیاں کم ہوتی ہیں لیکن جہاں تنگ دستی خاندان کو گھیرے ہو وہاں تلخیاں، غصہ، جھگڑا آئے روز کا معمول بن چکا ہوتا ہے۔ اس لئے انسانی رویوں کا تعین دراصل اس کے حالات کرتے ہیں اور حالات کا تعین یہ نظام زر کرتا ہے جس میں چند مٹھی بھر سرمایہ داروں کی تجوریاں بھرنے کی خاطر اکثریتی محنت کش عوام کی زندگیوں کو عذاب بنا کر رکھ دیا گیا ہے اور اس کا واحد حل محنت کش خواتین وحضرات کو اسی طرح سے پھر طبقاتی بنیادوں پر منظم ہو کر آگے بڑھنا پڑے گا جس طرح روسی محنت کش روسی انقلاب کی جانب بطور ایک طبقہ بڑھے تھے اور جس کا جراتمندانہ آغاز فروری انقلاب میں پیٹروگراڈ کی محنت کش طبقے کی خواتین نے کیا تھا تاکہ اس ملک کے وسائل کو اس ملک کی محنت کش عوام اپنے کنٹرول میں لیکر اس کو اس ملک کے اجتماعی تصرف میں لا سکے اور ایسا صرف محنت کشوں کے ایک سوشلسٹ انقلاب کی صورت میں ہی ممکن ہے۔