انقلابی جدوجہد کا استعارہ شہید اعظم بھگت سنگھ

Share this

یاسر خالق

 بھگت سنگھ نے جس عہد میں اپنے سیاسی شعور کی آنکھ کھولی بلاشبہ وہ عہد انسانی تاریخ کا دھماکہ خیز عہد تھا۔ ایک طرف پہلی عالمی سامراجی جنگ، دوسری طرف اسی جنگ کی کوکھ سے روس میں برپا ہونے والا محنت کشوں کا سوشلسٹ انقلاب، تیسری طرف جرمنی، چین اور دیگر ممالک میں محنت کش طبقے کی ادھوری انقلابی تحریکیں و سرکشیاں اور چوتھی طرف برصغیر میں برطانوی سامراج اور اسکے کمزور ہوتے ہوئے نوآبادیاتی تسلط کے خلاف زوردار عوامی تحریک۔ عمومی طور پر اس عہد کو بلند نظریاتی معیار اور بلند مزاحمتی سیاسی کردار کا حامل عہد بھی کہا جا سکتا ہے۔ یہ عہد پوری دنیا میں سرمایہ داری اور سامراجیت کے خلاف بھرپور طبقاتی تحریکوں کا عہد تھا۔ لیکن ماسوائے روس کے کسی بھی دوسرے ملک میں بغاوتیں اور تحریکیں کامیاب انقلاب کی شکل اختیار نہ کر سکیں۔ روس میں انقلاب کی کامیابی کے پیچھے لینن اور ٹراٹسکی کی قیادت میں روسی سوشل ڈیموکریٹک لیبر پارٹی کے بالشویک دھڑے (جس کے ہزاروں کی تعداد میں نظریاتی و سیاسی تربیت یافتہ کیڈرز تھے) کی صورت میں ایک مضبوط داخلی اور موضوعی عنصر کی موجوگی بنیادی اہمیت کی حامل تھی۔ جہاں موضوعی عنصر نظریاتی و تنظیمی گراوٹ یا کمزوری کا شکار رہا وہاں تحریکیں ناکام ہوئی یا چند اصلاحات کے حصول تک ہی محدود رہیں۔

برصغیر میں برطانوی سامراج کے خلاف چلنے والی تحریک کا جو بھیانک نتیجہ 1947ء کی خونی تقسیم کی شکل میں برآمد ہوا اس کی بنیادی وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ مارکسی نظریات سے لیس، مضبوط و منظم موضوعی عنصر کا بھی فقدان تھا۔ برصغیر میں بائیں بازو کے گروپوں، تنظیموں اور پارٹیوں کی بنیاد یا سوشلزم کے نظریات کا عوامی سطح پر پھیلاؤ کا آغاز پہلی جنگ عظیم اور انقلاب روس کے بعد ہوا۔ اس سے قبل ہندوستان کی مقامی جاگیردار و سرمایہ دار اشرافیہ کی نمائندہ سیاسی پارٹی کانگریس کی شکل میں موجود تھی، بعد ازاں مذہبی خطوط پر مسلم لیگ کا قیام عمل لایا گیا تاکہ مقامی مسلمان اشرافیہ کی الگ سے سیاسی نمائندگی کی جا سکے۔ 1919ء میں آل انڈیا نیشنل کانگریس نے Non-cooperation -movement کا آغاز کیا جو کچھ ہی عرصے بعد پرتشدد تحریک کی شکل اختیار کر گئی اور گاندھی نے پارٹی مشاورت کے بغیر ہی تحریک کے خاتمے کا اعلان کر دیا۔ اس اعلان کے بعد کانگریس میں دو دھڑے نمودار ہونا شروع ہو گئے۔ رام پرساد بسمل کی قیادت میں کانگریس کے یوتھ ونگ کا ایک حصہ پارٹی سے الگ ہوگیا۔ 1924ء میں رام پرساد بسمل، اشفاق اللہ خان اور دیگر ترقی پسند اور بائیں بازو کے لوگوں نے “ہندوستان ریپبلکن ایسوسی ایشن”HRA کی بنیاد رکھی. جبکہ 1926ء میں بھگت سنگھ نے “نوجوان بھارت سبھا” کے نام سے نوجوانوں کی ایک تنظیم کی تعمیر کا آغاز کیا جو کہ HRA کا عوامی چہرہ تھا۔ اسی طرح کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کی بنیاد بھی 1925ء میں رکھی گئی۔

ایچ آر اے نے “انقلابی” کے عنوان سے منشور ترتیب دیا، جس میں ایک طرف برطانوی راج کا خاتمہ کرتے ہوئے Federal Republic of the United States of India کا خاکہ پیش کیا تو دوسری طرف ہر طرح کے استحصال کے خاتمے کے لئے سوشلزم کے انقلابی نظریات کو مشعلِ راہ کے طور پر اپنایا۔ اس منشور کی بنیاد پر پمفلٹس اور دیگر اخباری مضامین کی صورت میں اپنے نظریات کو عوام تک لے جانے کے کام کا آغاز کیا اور انکے گرد عوام کو منظم کرنا شروع کیا۔ تنظیمی کام کو آگے بڑھانے کے لئے درکار فنڈز کی کمی کو پورا کرنے کے لیے پرتشدد کارروائیاں بھی کی گئیں جو انتہائی نقصان دہ ثابت ہوئیں، مثلآ 1925ء میں کاکوری کے مقام پر سرکاری خزانے سے بھری ٹرین کو لوٹ لیا گیا جس کی پاداش میں1927ء میں HRA کے چار مرکزی رہنماؤں کو پھانسی کی سزا دے دی گئی جن میں اشفاق اللہ خان اور رام پرساد بسمل بھی شامل تھے۔

قیادت کے اس خلا کو نوجوان بھگت سنگھ نے پر کرنا شروع کیا اور 1928ء میں بھگت سنگھ کی تجویز پر اور اسکی قیادت میں HRA کا نام تبدیل کر کے “ہندوستان سوشلسٹ ریپبلکن ایسوسی ایشن”(HSRA) رکھا گیا۔ جس کے بعد HSRA کی بنیادوں میں مارکسزم کے نظریات اور پرولتاریہ کے سیاسی اقتدار پر قبضے کے لئے سوشلسٹ انقلاب کی بحثیں مزید نکھر کر سامنے آئیں۔ اکتوبر 1928ء میں سائمن مشن کے دورہ ہندوستان کے خلاف پرامن عوامی مظاہرہ ہو رہا تھا جس کی قیادت لالا لجپت راۓ کر رہے تھے۔ پولیس نے مظاہرین پر لاٹھی چارج کیا جس سے لالا لجپت رائے شدید زخمی ہوئے اور ذہنی و جسمانی تشدد کے باعث نومبر میں انتقال کر گئے۔ بھگت سنگھ، چندر شیکھرآزاد، راج گورو اور سکھ دیو نے لالا کے قتل کا انتقام لینے کی خاطر ایک پولیس اہلکار کا قتل کر دیا۔

اسکے بعد 1929ء میں HRSA نے ایک اور ہنگامہ خیز حکمتِ عملی ترتیب دی جسکے تحت سیاسی کارکنوں کے خلاف بنائے گئے دو کالے قوانین Public Safety Bill اور Trade Disputes Bill کے خلاف احتجاج کے طور پر اور پروپیگنڈہ کی غرض سے اسمبلی ہال میں خالی جگہ پر بم پھینکا گیا اور بھگت سنگھ اور اسکے ایک اور ساتھی نے گرفتاری دیتے ہوئے جیل اور عدالت کو ایک انقلابی ٹول کی غرض سے استمعال کرتے ہوئے میڈیا کے ذریعے اپنے نظریات کے پھیلاؤ کی حکمتِ عملی کا راستہ اپنایا جو بہت وسیع پیمانے پر کارآمد ثابت ہوا۔ جیل میں ہندوستانی قیدیوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک روا رکھنے پر بھگت سنگھ اور اسکے ساتھیوں نے بھوک ہڑتال کر دی اور برطانوی حکومت سے صاف کھانے، صاف کپڑے اور مطالعہ کے لئے اخبار اور کتابوں کی فراہمی کے مطالبات پیش کئے۔ حکومت وقت نے تشدد کے ذریعے بھوک ہڑتال ختم کروانے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن وہ بھگت سنگھ اور اسکے ساتھیوں کے عزم، ہمت، جرات، حوصلے اور ثابت قدمی کو شکست نہیں دے سکی اور بالآخر 116 دن کے بعد انقلابی نوجوانوں کے تمام مطالبات کو تسلیم کیا گیا جسکے بعد ہڑتال ختم کی گئی۔ اس تاریخی بھوک ہڑتال کے اثرات یہ تھے کہ اسکے حق میں اور ریاستی تشدد کے خلاف نہرو اور جناح کو بھی اسمبلی میں بھگت سنگھ کے حق میں آواز اٹھانا پڑی۔

لاہور سازش کیس کی پیشیوں کے موقعہ پر بھگت سنگھ اور اسکے ساتھیوں نے کمرۂ عدالت سے ہو کر میڈیا کے ذریعے برطانوی سامراج کے تسلط، ظلم، جبر اور استحصال کو بے نقاب کرتے ہوئے سوشلزم اور انقلاب کے نظریات کو عوام تک پہنچانے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ اسی حکمتِ عملی کا نتیجہ تھا کہ کانگریس کے یوتھ ونگ میں بھگت سنگھ کے نظریات اور اسکی ناقابل مصالحت طبقاتی اور انقلابی جدوجہد کو گاندھی و نہرو کے نظریات و جدوجہد سے زیادہ پزیرائی حاصل ہونے لگی تھی اور سماج میں مزاحمت مزید شدت اختیار کر رہی تھی۔ یہی وہ خوف تھا جس نے برطانوی سامراج اور اسکی کاسہ لیس مقامی سیاسی اشرافیہ کو مجبور کیا کہ وہ بھگت سنگھ کو ہمیشہ کے لئے جدوجہد کے راستے سے ہی ہٹا دیں۔ یہی وہ خوف تھا جس کی بنیاد پر کانگریس اور مسلم لیگ کی سیاسی قیادت کو یہ جرآت نہ ہو سکی کہ وہ برطانوی سامراجی حکومت سے سیاسی کارکنوں کی پھانسی جیسے انتہائی عمل کو رکوا سکیں۔ یوں 23 مارچ 1931ء کو سینٹرل جیل لاہور میں بھگت سنگھ، سکھ دیو اور راج گورو کو پھانسی دے دی گئی۔ ان نوجوانوں کی نظریات اور انقلاب کے ساتھ لگن اور تڑپ اس قدر گہری تھی کہ پھانسی گھاٹ کی طرف جاتے ہوئے بھی انقلابی گیت گا رہے تھے اور پھانسی کا پھندا چوم کر بھی دیوانہ وار انقلاب زندہ باد کا نعرہ بلند کر رہے تھے۔ بھگت سنگھ اور ساتھیوں کی پھانسی سے قبل فروری1931ء میں چندر شیکھر آزاد نے بھی ایک پولیس مقابلے میں اپنے اپ کو گولی مار کر ہلاک کرنے کو گرفتاری پر ترجیح دی۔ بھگت سنگھ کی پھانسی کے بعد HSRA کی تمام مرکزی قیادت کا خاتمہ ہو گیا اور وہ قیادت سے محروم ہو کر بکھر گئی۔

بھگت سنگھ اور اسکے ساتھی بنیادی طور پر برطانوی سامراجی تسلط کے خاتمے کے بعد سیاسی و معاشی اقتدار مقامی جاگیردار و سرمایہ دار اشرفیہ کے ہاتھوں میں دینے کی بجائے کسانوں اور محنت کشوں کے ہاتھوں میں دینے کی جدوجہد کر رہے تھے۔ وہ قومی آزادی کی جدوجہد کو طبقاتی آزادی کی جدوجہد کے ساتھ ہمکنار کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ وہ لینن اور بالشویکوں کے نظریات اور تجربات کی بنیاد پر ایک ہی چھلانگ میں قومی جمہوری انقلاب اور سوشلسٹ انقلاب کے تقاضوں اور فرائض کو پورا کرنے کے لئے تمام تر تعصبات سے بالاتر عظیم طبقاتی جدوجہد کی صف بندی کرنے کی جدوجہد کر رہے تھے۔ وہ برصغیر کی مذہبی تقسیم کے خلاف بھرپور مزاحمت کرتے ہوئے تمام مذاہب کے محنت کشوں کی طبقاتی جڑت کی جدوجہد کو آگے بڑھا رہے تھے۔ وہ سامراجی نوآبادیاتی تسلط کا خاتمہ کرتے ہوئے ایک مزدور ریاست کے قیام کی جدوجہد کے آمین تھے۔ وہ سرمایہ دارانہ استحصال کے خلاف عالمی سوشلسٹ انقلاب کے سپاہی تھے۔

بھگت سنگھ نے جیل کی کال کوٹھڑی میں بھی مارکسزم کا مطالعہ جاری رکھا اور ساتھ تحریر کا کام بھی کیا. خاص طور پر فروری 1931ء میں “نوجوان سیاسی کارکنوں کے نام” کے عنوان سے ایک خط میں بھگت سنگھ نے پوری تحریک کا جائزہ لیتے ہوئے سرمایہ داری کے خلاف سوشلسٹ انقلاب کی حتمی منزل کے حصول کے درست راستے کی نشان دہی کرتے ہوئے لینن اسٹ اور بالشویک تنظیمی طریقہ کار کی مکمل تائید اور حمایت کی تھی۔ اس تحریر میں وہ برملا اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ وہ ہرگز کوئی دہشتگرد نہیں ہیں بلکہ ایک انقلابی ہیں جسکے پاس ایک درست نظریہ اور پروگرام موجود ہے۔ یہ شاندار تحریر آج بھی برصغیر کے نوجوانوں کے لئے انقلابی نظریات و تنظیمی طریقہء کار کے حوالے سے مشعلِ راہ کی حیثیت رکھتی ہے۔

ایچ ایس آر اے کے خاتمے کے بعد کمیونسٹ پارٹی عوام میں کسی حد تک اپنی پہچان بنانے اور حمایت حاصل کرنے میں کامیاب رہی مگر نظریاتی زوال پزیری یعنی سٹالنزم کی مرحلہ واریت اور سٹالنسٹ افسر شاہی کے احکامات کی پیروی کے نتیجے میں دوسری عالمی جنگ میں برطانوی سامراج کی حمایت جیسے جرائم نے کیمونسٹ پارٹی کو رد انقلابی صفوں میں لا کر کھڑا کر دیا اور وہ وسیع عوامی حمایت حاصل کرنے کی بجائے پہلے سے موجود حمایت سے بھی ہاتھ دھو بیٹھی۔کمیونسٹ پارٹی کی انہی نظریاتی و سیاسی کمزوریوں، غلطیوں اور جرائم کے باعث ہی 1944-46 میں جہازیوں کی طبقاتی بغاوت کو انقلابی راہوں پر استوار نہیں کیا جا سکا حالانکہ وہ بغاوت عام ہڑتال کی شکل اختیار کرتے ہوئے دیگر اداروں اور ملک کے کونے کونے تک اپنے انقلابی اثرات نمایاں کر رہی تھی۔ اسی طبقاتی بغاوت کا خوف تھا جس نے شکست خوردہ برطانوی سامراج کو مجبور کیا کہ وہ برصغیر کو مذہبی بنیادوں پر چیرتے ہوئے، جاری طبقاتی و انقلابی جڑت اور جدوجہد کا خاتمہ کرتے ہوئے یہاں مذہبی نفرتوں اور تقسیموں کو بڑھاوا دے تاکہ انکا سامراجی اور استحصالی نظام قائم رہ سکے۔

خونی بٹوارے اور اس نام نہاد آزادی کا جو تجزیہ بھگت سنگھ نے نو دہائیاں پہلے پیش کیا تھا وہ حرف با حرف سچ ثابت ہو رہا ہے۔ اس نے کہا تھا کہ آزادی سے ہماری مراد ہرگز یہ نہیں ہے کہ اقتدار برطانوی سامراج کے ہاتھوں سے نکل کر مقامی اشرافیہ کے ہاتھ میں آ جائے اور عوام کی زندگیاں پہلے سے زیادہ تلخ ہوجائیں، بلکہ ہمیں ایسی آزادی کی ضرورت ہے جہاں اقتدار محنت کش عوام کے ہاتھوں میں ہو تاکہ ہر قسم کے ظلم، جبر اور استحصال کا خاتمہ کرتے ہوئے ایک غیر طبقاتی سماج کا قیام عمل میں لایا جائے۔ برصغیر کے نوجوانوں اور محنت کشوں کے لئے آج بھی حقیقی راہ نجات بھگت سنگھ کے فلسفۂ آزادی و انقلاب میں ہی پنہاں ہے۔

برصغیر کے نوجوانو! اور محنت کشو! آگے بڑھو اور تمام تر مذہبی، قومی، لسانی اور سرحدی تعصبات کو پرے دھکیلتے ہوئے طبقاتی اور انقلابی جڑت پیدا کرتے ہوئے ایک مضبوط، منظم اور وسیع عوامی بنیادوں پر مشتمل موضوعی عنصر کی تعمیر کی جدوجہد کو تیز تر کرو تاکہ بٹوارے کے زخم سے جنم لینے والے غربت، جہالت، انپڑھتے، لاعلاجی، بےگھری، ظلم، جبر، قومی و معاشی استحصال اور مذہبی شدت پسندی کے ناسوروں کا ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خاتمہ کیا جا سکے، کیونکہ سوشلزم اور انقلاب کے علاوہ تمام راستے تباہی اور بربریت کے راستے ہیں۔

انقلاب زندہ باد

برصغیر کے محنت کشوں کی طبقاتی جڑت زندہ باد 

برصغیر کی سوشلسٹ فیڈریشن زندہ باد۔