Share this
مشترکہ تحریر
کبیر خان اینڈ یاسر خالق
اٹھارویں صدی کے وسط سے رونما ہونے والے صنعتی انقلابات نے ذرائع پیداوار، پیداوار اور سماجی ارتقاء میں ایک ایسی معیاری جست کو جنم دیا جس کے نتیجے میں یورپ اور دنیا کے دیگر خطوں میں جدید صنعتی معاشروں اور ریاستوں کا قیام عمل میں آنا شروع ہوا۔ انسانی تاریخ کے آگے کے سفر میں صنعتی انقلاب بہت اہم پیش قدمی تھی۔ ابتدائی سرمایہ داری کی خاصیت یہ تھی کہ اس نے سماج کی ایک بڑی اکثریت کو پیداواری عمل کا حصہ بنایا، جس کے باعث روزگار کے وسیع مواقع پیدا ہوۓ اور انسان کے معیار زندگی میں قدرے مثبت تبدیلی دیکھنے کو ملی۔ چونکہ سرمایہ داری کی بنیاد انسانی محنت اور وسائل کے ننگے استحصال پر قائم ہے اور اسی وجہ سے انسانی محنت کا استحصال سرمایہ داری کا بنیادی خاصہ رہا ہے لہذا یہ عہد محنت کشوں کے ننگے استحصال یعنی طویل اوقات کار، کم اجرتوں اور دیگر ظالمانہ قوانین پر مبنی عہد تھا۔ مادی حالات نے محنت کشوں کو اس ننگے استحصال کے خلاف اجتماعی جدوجہد منظم کرنے پر مجبور کیا۔ سرمایہ داری کے اس عہد کی مجموعی ہیئت اور کردار کو پرکھا جائے تو سرمایہ داری کا یہ عہد Labour Intensive عہد کے طور پر جانا جاتا ہے کیونکہ سرمایہ دار طبقے کے پاس پیداواری عمل کو آگے بڑھانے اور اسے وسعت دینے کے لئے افرادی قوت پر انحصار سے ہٹ کر دوسرا کوئی راستہ نہیں تھا اور یوں سماج کی محنت کش عوام کا ایک بڑا حصہ پیداواری عمل میں شامل ہوتا چلا گیا اور پیداواری عمل میں محنت کش عوام کی بڑھتی ہوئی یہ شمولیت اور شرکت اس کے حجم اور طاقت کو بڑھاتی چلی گئی۔ حالات کار کی تنگی اور استحصال کی شدت نے جب محنت کش عوام کو جدوجہد کے عمل میں داخل ہونے پر مجبور کیا تو اس کے نتیجے میں وہ اپنے لئے کچھ نہ کچھ حقوق حاصل کرنے میں کامیاب ہونے لگا گوکہ یہ حاصلات بہت بڑی قربانیوں سے عبارت رہیں لیکن اس پورے عمل کے تسلسل کے دوران وہ اپنے لئے یونین سازی کے حقوق، دیگر جمہوری حقوق، مستقل روزگار کے حقوق، اوقات کار میں کمی وغیرہ جیسے حقوق کے حصول کو قابلِ ذکر حد تک ممکن بناتا رہا۔ یوں سرمایہ داری کے اس عہد نے محنت کش عوام کی جدوجہد کے اس پورے عمل کے باعث سماج پر خاصے مثبت اثرات مرتب کئے کیونکہ جدوجہد کے نتیجے میں حاصل کردہ مستقل روزگار عمومی سماجی قوت خرید کو بڑھاوا اور وسعت دے رہا تھا۔پیداوار کی یہ کھپت سرمایہ داروں کے منافعوں اور شرحِ منافع میں اضافے کا باعث بن رہی تھی۔ جیسے ہم سب اس مظہر سے بخوبی آگاہ ہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام میں پیداوار کا حتمی مقصد شرح منافع میں اضافہ ہی ہے، اسی لئے جہاں سرمایہ دارانہ نظام کی انسانی تاریخ میں آمد ایک ترقی پسندانہ عمل تھا وہیں اب یہ نظام زر اپنے ارتقاء کی ایک خاص سطح پر پہنچ کر انسانی ضروریات کی بلاتفریق تکمیل اور بحیثیت مجموعی سماجی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن کر کھڑا ہو گیا ہے، کیونکہ اس نظام معیشت میں پیداواری عمل تو اشتراکی ہے مگر اسکا تصرف اور کھپت مکمل طور پر انفرادی ہیں اور اس انفرادی تصرف کا انحصار ہر شخص کی قوت خرید پر ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ صرف قدامت پرست خیالات ہی جدت اور ترقی کے مخالف ہو سکتے ہیں جبکہ ترقی پسند نظریات نے ہمیشہ سائنس و ٹیکنالوجی کی جدت کو عمومی طور پر سراہا ہے کیونکہ اس جدت نے انسانی زندگی کو سہل بنانے اور سماجی ارتقائی عمل کو آگے بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور کر رہی ہے۔ لیکن جب کبھی کسی نظام کا بالائی ڈھانچہ اور اس عہد کی ٹیکنالوجی کی جدت کا آپسی ٹکراؤ شروع ہو جائے تو سانئسی نظریات کے حامل لوگوں کے لئے اس ٹکراؤ کی کیفیات،شدت اور عمومی اثرات کا جائزہ لینا ناگزیر ہو جاتا ہے تاکہ اس چیز کا درست ادراک حاصل کیا جا سکے کہ سائنس وٹیکنالوجی کی ترقی اور جدت کی یہ سطح اس وقت کس نوعیت کے سپرا سٹرکچر یا بالائی ڈھانچہ کی متقاضی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ٹیکنالوجی میں جدت پیداوری اور سماجی ارتقاء کے عمل میں کسی انقلاب سے کم حیثیت نہیں رکھتی لیکن، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ٹیکنالوجی میں جدت بحثیت مجموعی تمام سماج کی ترقی کا باعث بنتی اور تمام انسانوں کے معیار زندگی کو بلند کرتے ہوئے سماج میں موجود امارت و غربت جیسے بنیادی تضاد کو ختم کرنے یا کم کرنے میں مددگار ثابت ہوتی لیکن اس کے برعکس ہو یہ رہا ہے کہ ذرائع پیداوار کی جدت صرف مٹھی بھر سرمایہ داروں کے شرح منافع میں بےپناہ اضافہ کر رہی ہے جبکہ سماج کی وسیع اکثریت ذرائع پیداوار کے نجی ملکیتی کنٹرول اور نیو لبرل اکنامک پالیسیوں کے تسلط کے تحت حاصل ہونے والی سائنس وٹیکنالوجی کی اس جدت کے باعث معاشی دھارے سے ہی باہر ہو رہی ہے۔ٹیکنالوجی میں جدت روزگار کی ہیئت کو تبدیل کر رہی ہےجس کے نتیجے میں پرانے طرز کے روزگار کا خاتمہ ہو رہا ہے اور دور جدید کے نئے طرز کے روزگار متعارف ہو رہے ہیں۔ پرانے روزگار کے خاتمے اور نئے روزگار کے مواقعوں کے مابین فرق ہی وہ فیصلہ کن عنصر ہے جو سماجی ہیئت کے بدلنے اور طبقاتی فرق کے کم یا زیادہ ہونے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
ابتدائی Labour intensive سرمایہ داری کے برعکس نئی شکل میں ڈھلنے والی Capital Intensive سرمایہ داری نے پیداواری عمل میں افرادی قوت کے خاطرخواہ حصے کی شمولیت کو جدید مشینری اور آٹومیشن سے یا تو مکمل طور پر بدل دیا ہے یا کم کر دیا ہے۔ اس میں مزید بدلاؤ اور کمی کا عمل تیزی سے جاری ہے۔ پیداواری عمل میں اس بدلاؤ کے نتیجے میں پیداواری صلاحیتیں بظاہر تو بڑھ رہی ہیں مگر نیو لبرل اور نام نہاد ٹریکل ڈاؤن معاشی پالیسیوں کے تسلط کے تحت عمومی قوت خرید میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ اس بے ہنگم پیداواری کھپت میں اضافہ تب ہی ممکن ہے جب سماج کی وسیع اکثریت کی جیبوں میں اس پیداوار کی خریداری کے لئے سرمایہ موجود ہو مگر حقیقت یہ ہے کہ منڈی کی معیشت کے تحت ہر گزرتے دن کے ساتھ سرمایہ چند ہاتھوں میں مرتکز ہو رہا ہے جبکہ اس کراۂ ارض کی بڑی اکثریت دو وقت کی روٹی سے بھی محروم ہو چکی ہے اور مزید ہوتی چلی جارہی ہے۔
آٹومیشن
“زپیا ریسریچ (Zippia Research) کے ایک مصنف “جیک فلن” (Jack Flynn) کی امریکہ میں کی جانے والی حالیہ ایک تحقیق کے مطابق 1990ء کے بعد سے ملازمین کی مزدوری کی مد میں آنے والی لاگت میں 200 فیصد سے زائد اضافہ ہوا ہے۔ جبکہ دوسری طرف روبوٹس کی قیمتوں میں 50 فیصد تک کمی واقع ہوئی ہے۔ جس کے نتیجے میں ملازمتوں میں مسلسل کمی جبکہ روبوٹس کی پیداوار اور تنصیبات میں مسلسل اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ امریکہ میں تقریبا 293,200 صنعتی روبوٹس موجود ہیں اور اس تعداد میں سالانہ 40,000 کا اضافہ ہو رہا ہے۔ چین نے سال 2020ء کے دوران 168,400 صنعتی روبوٹس نصب کئے ہیں۔ یہ پوری دنیا میں صنعتی روبوٹس کی تنصیبات کا 44 فیصد بنتا ہے۔ سال 2020ء کے دوران 71 فیصد روبوٹس کی تنصیبات ایشیاء میں ہوئی ہیں۔ صنعتی روبوٹس کا 82 فیصد مینوفیکچرنگ انڈسٹری سے منسلک ہے جبکہ نقل و حمل، دھات سازی، الیکٹرانک و کیمیکل، خوراک و مشروبات، لکڑی و کاغذ کی صنعتوں میں بھی روبوٹس کی تنصیبات ہو رہی ہیں۔ اسی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ اگلے پانچ سالوں میں آٹومیشن امریکی GDP میں 5 فیصد تک اضافے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ امریکہ میں 2020ء تک مصنوعی ذہانت (AI) مارکیٹ کا حجم 60 بلین ڈالر سے زائد تھا جبکہ ماہرین نے 2021ء سے 2028ء تک مصنوعی ذہانت (AI) مارکیٹ میں سالانہ 40 فیصد ترقی کی پیشگوئی کی ہے۔
یہ تمام صورتحال واضح کر رہی ہے کہ ذرائع پیداوار میں جدت کا پہلا اور مثبت پہلو یہ ہے کہ یہ پیداواری عمل کو سہل اور تیز تر بناتا ہے جس کے باعث پیداوار اور قدر زائد میں بے پناہ اضافہ ممکن ہوتا ہے۔ اس کے دوسرے اور منفی پہلو کو سمجھنے کے لئے اسی تحقیق میں دیئے گئے اعداد و شمار کا مزید جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔
بےروزگاری اور سرمایہ داری کے تضادات
جیک فلن کی تحقیق کے مطابق امریکہ میں سال 2020ء کے بعد آٹومیشن کے باعث کم از کم 260,000 ملازمتیں ختم ہونے کی طرف گئی ہیں۔ یہ تعداد امریکی مینوفیکچرنگ انڈسٹری کی کل افرادی قوت کا 2 فیصد بنتی ہے اور اس میں تیزی کے ساتھ اضافہ جاری ہے۔ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ امریکہ میں 2030ء تک مینوفیکچرنگ میں 2 کروڑ ملازمتوں کے خاتمے کے شدید خطرات موجود ہیں جبکہ دیگر صنعتوں کو ملا کر مجموعی طور پر 7 کروڑ 30 لاکھ ملازمتوں کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ یقیناً یہ وہ پرانا طرزِ روزگار ہے جس کو آٹومیشن کی وجہ سے شدید ترین خدشات لاحق ہیں۔ جبکہ دوسری طرف اس نئی صنعت کی وسعت کے ساتھ ساتھ نئے طرز کے روزگار بھی متعارف ہوں گے جن کا شاید ابھی تک کسی کو گماں تک بھی نہیں ہے لیکن یہ تحقیق امریکہ میں 2030ء تک آٹومیشن کی وجہ سے 5 کروڑ 80 لاکھ نئے طرز کی ملازمتیں پیدا ہونے کے امکانات کی پیشگوئی کر رہی ہے۔ متروک ہوتے ہوئے روزگار اور نئے روزگار کے مواقعوں کے درمیان فرق یہ ظاہر کر رہا ہے کہ اگلے اٹھ سال کے دوران صرف امریکہ میں مجموعی طور پر ڈیڑھ کروڑ انسان اپنے روزگار سے محروم ہو سکتے ہیں اتنی بڑی تعداد میں بےروزگاری کا پھیلاؤ نظام سرمایہ داری کے تحت ترقی کے تمام داعووں کے سامنے سوالیہ نشان بن رہی ہے۔ ایک طرف اتنی بڑی تعداد میں بےروزگاری کا پھیلاؤ اور دوسری طرف نیولبرل معاشی پالیسیوں کے تحت مستقل روزگار سے عارضی روزگار اور پھر دیہاڑی داری سے گھنٹوں کے روزگار میں منتقلی بظاہر روزگار کے حجم کی بڑھوتری کے تاثر کو قائم کرنے کے لئے سرمایہ داروں کے بیانیے کو وقتی تقویت ضرور فراہم کر سکتا ہے کہ یہ آٹومیشن محنت کشوں کے مجموعی حجم میں کوئی بڑی تبدیلی تو ہرگز پیدا نہیں کر رہی لیکن عملاً نیولبرل اکنامک پالیسیوں کے تسلط میں پیدا ہونے والی سائنس وٹیکنالوجی کی جدت اور اس کے نتیجے میں جنم لینے والی آٹومیشن عمومی معیار زندگی کو بلند، سہل اور خوشحال بنانے کی بجائے، اس میں گراوٹ اور بے یقینی کا سبب بن رہی ہیں۔ اور اگر یہ سلسلہ یونہی آگے بڑھتا رہا جو کہ نیولبرل اکنامک پالیسیوں کے تسلط تلے ناگزیر طور پر بڑھنا ہے تو اس کے نتیجے میں گھنٹوں پر مبنی اس عارضی روزگار کا سلسلہ بھی اپنے خاتمے کی جانب بڑھنا شروع ہو جائے گا اور بڑی تعداد میں روزگار کے مکمل خاتمے کا سبب بن جائے گا۔ یہاں بائیں بازو کے مختلف رجحانات میں مارکس کی اس بات کو لے کر ایک قدامت پسندانہ نقطہء نظر ضرور موجود ہے، جو مارکس کی بات کو بالکل ایک جامد و ساکت حالت میں دیکھنے کا عادی ہے کہ چونکہ یہ مارکس نے کہا تھا کہ انسانی قوت محنت کے بغیر نہ تو قدر پیدا ہو سکتی ہے اور نہ ہی قدر زائد پیدا ہو سکتی ہے۔ ہماری رائے میں یہ مارکس کے بیانیے اور اصول قدر کو بالکل جامد و ساکت حالت میں دیکھنے کا طرز عمل ہے۔ اس کے لئے پہلے ہمیں بنیادی نکتے پر جانا پڑے گا جب اس نے سرمائے کو دو اہم حصوں میں تقسیم کیا تھا۔
1- متغیر سرمایہ (variable capital).
2- مستقل سرمایہ (Constant Capital).
بنیادی طور پر سرمایہ کے ان دونوں حصوں میں ایک جدلیاتی تعلق ہے جسے جدلیاتی تحرک کی شکل میں رکھ کر ہی سمجھا جا سکتا ہے۔ ابتدائی طور پر سرمائے کے پہلے حصے یعنی متغیر سرمائے کے بغیر دوسرے حصے یعنی مستقل سرمائے کا وجود ممکن نہیں تھا اور مستقل سرمائے کا مکمل انحصار دراصل متغیر سرمائے پر تھا لیکن جب متغیر سرمائے نے مستقل سرمائے کو جنم دیا تو دراصل اس نے اپنی قوت محنت کی ایک خاص مقدار اور صلاحیت مستقل سرمائے میں منتقل کی اور پھر مستقل سرمائے نے اپنے اندر منتقل شدہ اس قوت محنت اور صلاحیت کو متغیر سرمائے کی پیداواری صلاحیت کو بڑھانے کی شکل میں واپس منتقل کیا اور یوں دونوں کے اس جدلیاتی تعلق سے پیداواری صلاحیتوں میں اضافہ ہونا شروع ہوا اور سرمائے کے یہ دونوں حصے بیک وقت ایک دوسرے میں اپنی اپنی صلاحیتیں منتقل کرتے رہے اور نتیجتاً متغیر سرمائے کی نسلوں کی قوت محنت اور صلاحیت مستقل سرمائے میں مرتکز ہوتی چلی گئی اور آج یہ عمل ترقی کی ایک ایسی معراج پر پہنچ چکا ہے جہاں متغیر سرمائے کی سالہاسال اور نسلوں کی قوت محنت اور صلاحیت مستقل سرمائے میں منتقل ہوتے ہوتے ایک خود کار شکل اختیار کر چکی ہے۔ مختصراً یہ کہا جائے تو شاید غلط نہ ہو کہ آج کا روبوٹ انسانی قوت محنت اور صلاحیت کی ایک اعلیٰ مرتکز ترین شکل ہے۔لیکن ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ سلسلہ یکطرفہ طور پر زیادہ لمبا عرصہ
آگے نہیں بڑھ سکتا کیونکہ اس جدت کا اب مجموعی طور پر سماجی ترقی سے ٹکراؤ بنتا جا رہا ہےاور جوں جوں آٹومیشن میں اضافہ ہوتا جائے گا، ٹکراؤ کی شدت میں بھی اضافہ ہوتا چلا جائے گا اس لئے ذرائع پیداوار کی یہ جدت دراصل اب بالائی ڈھانچے میں ایک انقلابی تبدیلی کی شدید متقاضی ہے کیونکہ یہ نظام اب پیداواری صلاحیتوں کو ایک ترقی پسندانہ پیرائے میں آگے بڑھانے سے مکمل طور پر قاصر ہوتا چلا جا رہا ہے اور ذرائع پیداوار کی اور سماجی ترقی کا گلہ گھونٹ رہا ہے۔
محنت کشوں کے معاشی اور سیاسی نظم میں ٹوٹ پھوٹ
نیو لبرل اکنامک پالیسیوں کے تسلط اور آٹومیشن کے امتزاج سے اس سماج پر تباہ کن اثرات مرتب ہوئے ہیں اور تباہی وبربادی کا یہ سلسلہ پوری شدومد کے ساتھ جاری و ساری ہے۔ اس سے صرف روایتی معیشت، اس کے ادارے اور ان سے منسلک روزگار ہی متاثر نہیں ہوئے بلکہ اس سے محنت کشوں کی معاشی اور سیاسی تنظیمیں اور پارٹیاں بھی بہت بری طرح سے متاثر ہوئی ہیں۔ روایتی روزگار کے مخدوش ہونے سے دہائیوں کی جدوجہد سے تعمیر کردہ محنت کشوں کی معاشی تنظیمیں یعنی ٹریڈ یونینز بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئیں اور پھر انھی معاشی تنظیموں کی طاقت پر کھڑی ان کی سیاسی تنظیمیں جنھیں ہم سوشل ڈیموکریسی، سوشلسٹ پارٹیوں وغیرہ کی شکل میں پوری دنیا میں دیکھتے تھے، وہ بھی خوفناک زوال پزیری کا شکار ہوتی چلی گئیں۔محنت کشوں کو ٹریڈ یونین کا حق سرمایہ داروں کی جانب سے کوئی پلیٹ میں ڈال کر نہیں دیا گیا تھا بلکہ محنت کشوں نے یہ حق اپنی کئی دہائیوں اور نسلوں کی جدوجہد کے بڑے تکلیف دہ عمل کے دوران حاصل کیا تھا۔ روایتی معیشتوں اور اس کے اداروں کی اس جدت کے ہاتھوں تبدیلی دراصل ان اداروں سے منسلک محنت کشوں اور ان کے معاشی و سیاسی تنظیموں کی ٹوٹ پھوٹ کی شکل میں ہمارے سامنے آئی اور معیشت کی اور اس کے اداروں کی نئی شکلوں سے منسلک محنت کشوں کو اب اس سب کے حصول کے لئے جدوجہد کی ایک نئی تاریخ رقم کرنا پڑے گی۔ ایمازون کے محنت کشوں کی جدوجہد سے حالیہ عرصے میں بننے والی ان کی ٹریڈ یونین اس کا ایک شاندار آغاز ہے لیکن یہ سفر شاید زیادہ تکیلف دہ اور پیچیدہ ہو اور ایک صبر آزما جدوجہد کا متقاضی بھی کیونکہ اس پورے عمل سے بے شمار پیچیدگیوں نے بھی جنم لیا ہے اور ان پیچیدگیوں سے کئی سوالات نے بھی جنم لیا ہے دوسرے معنوں میں ہمیں آج لینن کا وہ تاریخی کردار اور اس کی اہمیت کا آج کے عہد میں پھر بڑی شدت سے احساس ہوتا ہے جب اس نے روس کے اس عہد کے پیچیدہ سماج کے اندر سے ابھرنے والے پیچیدہ ترین سوالات کے جوابات تلاش کرنے کی جسارت کی تھی کیونکہ ہمیں آج کے اس پیچیدہ عہد کی پیچیدگیوں کے اندر سے ابھرنے والے پیچیدہ ترین سوالات کے جوابات تلاش کر کے سماج کی آگے کی راہوں کی سمتیں واضح کرنا ہوں گی۔آج مارکس کے عہد کی بڑی صنعت کے چھت تلے جمع پرولتاریہ جسے مارکس نے سرمایہ دار کے اپنے ہاتھوں پیداکردہ سرمایہ داری کا گورکن کہا تھا، کو سرمایہ دار نیولبرل حکمران اشرافیہ نے سائنس وٹیکنالوجی کی حاصل شدہ جدت سے پیدا شدہ مادی حالات کے مکمل استعمال سے منتشر کر کے رکھ دیا ہے اور بدقسمتی سے بائیں بازو کی لیڈرشپ نظریاتی و سیاسی اور نفسیاتی طور پر مارکس کے عہد سے تاحال باہر نکل کر سوچنے سے قاصر دکھائی دیتی ہے اور یہی آج کا سب سے بڑا سیاسی بحران بھی ہے۔
متبادل
دولت و وسائل کی منصفانہ تقسیم کے بغیر طبقاتی تضاد کا خاتمہ ناممکن ہے کیونکہ جب تک طبقات موجود ہیں طبقاتی کشمکش جاری رہے گی۔پیداوار کے مقصد کو بدلے بغیر یعنی شرح منافع کے حصول کی بجائے انسانی ضروریات کی تکمیل کی غرض سے وسائل کی مکمل منصوبہ بندی اور منصوبہ بند پیداوار کئے بغیر طبقاتی تفریق کا خاتمہ ممکن نہیں اور ذرائع پیداوار کے ملکیتی رشتے بدلے بغیر پیداوار کا مقصد بدلنا ممکن نہیں۔ ملکیتی رشتے اور پیداوار کا مقصد بدلنے کے لئے سماج کے اکثریتی حصے یعنی محنت کش اور محروم طبقات کو آج کے بدلتے ہوئے عہد کے مطابق اپنے آپ کو بطور طبقہ منظم کرنا ہوگا تاکہ محنت کش طبقات کی سماجی و سیاسی طاقت کے اظہار کے عمل کی بحالی کو تیز تر کیا جا سکے۔ کیونکہ جب تک محنت کش طبقات منظم انداز میں سیاسی و سماجی طاقت کو اپنے جمہوری اور منصوبہ بند انتظام میں نہیں لیتے تب تک اس سماجی اونچ نیچ پر مبنی اس نظامِ زر کو شکست نہیں دی جا سکتی اور نہ ہی اس متروک نظام سرمایہ داری کے سائنسی متبادل نظام اور سماج کی بنیاد رکھی جا سکتی۔ یقیناً سرمایہ داری کا ایڈوانس سماجی اور سائنسی متبادل ایک سوشلسٹ سماج ہی ہو سکتا ہے جہاں ٹیکنالوجی کی اس عالمگیر جدت کو تمام انسانیت کے بہتر مستقبل کے لئے استعمال میں لایا جاسکتا ہے کیونکہ آج اس کراۂ ارض پر اتنے وسائل اور دولت موجود ہے کہ انکی منصفانہ تقسیم کے ذریعے بھوک، ننگ، جہالت، لاعلاجی، بےروزگاری اور بےگھری جیسی ذلتوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دفنایا جا سکتا ہے۔ نظام سرمایہ کی بدبودار نعش کو دفنانے میں جتنی تاخیر ہو رہی ہے سماج میں اتنا ہی زیادہ تعفن پھیل رہا ہے۔ اس تعفن کے خاتمے کے لئے سماج کی ہر اول اور باشعور پرتوں کو اپنے عمل انگیزانہ کردار کو تیز تر کرنا ہوگا۔