Share this
تحریر: الطاف بشارت
(حصہ اول)
مارکس کے جنازے پر خطاب کرتے ہوئے اینگلز نے کہا تھا: “جس طرح ڈارون نے نامیاتی فطرت کے قانونِ ارتقاء کی دریافت کی تھی اسی طرح مارکس نے انسانی تاریخ کے ارتقاء کا قانون دریافت کیا؛ وہ سادہ حقیقت جسے نظریات کی حد سے زیادہ بالیدگی نے چھپا دیا تھا یہ کہ سیاست، سائنس، فنون لطیفہ، مذہب وغیرہ میں حصہ لینے سے پہلے انسانیت کو خوراک، لباس اور رہائش درکار ہے: لہذا فوری مادی ضروریات کی پیداوار اور نتیجتاً مخصوص افراد یا کسی عہد کی ترقی وہ بنیادیں فراہم کرتی ہے جن پر ریاستی ادارے، قانونی افکار، فنون لطیفہ اور یہاں تک کے مذہب کے حوالے سے لوگوں کے خیالات تشکیل پاتے ہیں اور اُن پر روشنی بھی اِسی طریقے سے ڈالی جا سکتی ہے نہ کہ ان بنیادوں کے ذریعے جن پر اس سے پہلے کوششیں کی جاتی رہی.
لیکن بات یہی ختم نہیں ہوتی. مارکس نے موجودہ سرمایہ دارانہ طرز پیداوار اور اس پر بننے والے بورژوا سماج کے مخصوص قانون حرکت بھی دریافت کئے. قدر زائد کی دریافت نے اُس مسئلے پر روشنی ڈالی جس کو حل کرنے کی تمام سابقہ کوششیں چاہے وہ بورژوا معیشت دانوں کی طرف سے کی گئی ہوں یا پھر سوشلسٹ نقادوں کی طرف سے؛ اندھیرے میں ٹامک ٹویاں مارنے کے مترادف تھیں.”
اینگلز نے اسی خطاب میں یہ اظہار بھی کیا تھا کہ ‘ایک انقلابی فرد ہونے کے ناطے مارکس اپنے عہد کا سب سے زیادہ تہمت زدہ شخص تھا’ یہ بات آج کے حالات کیلیے بھی مکمل درست ہے. اپنے تجزیے کے جدلیاتی مادی طریقہ کار سے مارکس نے ناصرف ماضی کی تاریخ کو فرسودہ ثابت کیا بلکہ تجزیے کے عمومی طریقہ کار، روایتی تاریخ، عمرانیات و معاشیات کو متروک بنا دیا تھا. یہی وجہ ہے کہ تجزیے کا جدلیاتی طریقہ کار ماہرین عمرانیات و معاشیات کے لیے کبھی قابل قبول نہیں رہا. کیونکہ اس تجزبے کا نچوڑ ایسے مزدور سماج پر منتج ہوتا جہاں ہر چیز کی فروانی ہو، مجموعی سماجی دولت مجموعی انسانیت کی ملکیت ہو، افراد کی حاکمیت ختم ہو جائے استحصال باقی نہ رہے اور غیر طبقاتی سماج طبقاتی جدوجہد کی ضرورت کو ختم کر سکے. یعنی کیمونزم! سرمایہ داروں اور ان کے کاسہ لیسوں کا کیمونزم سے خوفزدہ ہونا تو قابل سمجھ ہے. بورژوا طبقے پر اس بھوت کا خوف تو تین صدیوں سے منڈلا رہا ہے. وہ اس کو رد کرتے ہوئے کبوتر کی طرح بلی کو دیکھ کر آنکھیں بند کرتے ہوئے اپنے چھپنے کے یقین سے اس خوف کو دور بھگانے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں. انہیں لگا رہنا چاہیے کیونکہ ان کے پاس اس کے علاوہ کوئی راستہ موجود نہیں.
اسی طرح قانونِ قدر کارل مارکس کے تجزبے کا سب سے اہم اور بنیادی ستون ہے جسے لینن “مارکس کے معاشی نظریات کا سنگ بنیاد” کہتے ہیں. جس قانون میں مارکس نے منافع کے اصل منبع ‘قوت محنت’ کو دریافت کرتے ہوئے اس کی بنیاد پر قدرِ زائد اور سرمایہ دارانہ ارتکاز کے قانون کو دریافت کیا. قانونِ قدر سرمایہ دارانہ معاشرے کا پورا ڈھانچہ فراہم کرتا ہے. مارکس نے اِسی قانون کی بنیاد پر اپنے نظریہ بحران کوتخلیق کیا اور اس نظام کی انتشاری فطرت کو اس کا سب بڑا دشمن قرار دیتے ہوئے اس نظام کے بدلنے کی ناگزیر تاریخی اور مادی بنیادوں کو سامنے لایا.
یہ قانون ہمیشہ سے سرمایہ داروں اور ان کے حاشیہ برداروں کی تنقید کی زد میں رہا لیکن ان کے پاس کبھی بھی ٹھوس دلیل نہیں رہی ان کی تنقید سے ان کی اس خواہش کا اظہار ضرور ہوتا ہے کہ کاش مارکس اس راز کو بند گلی میں ہی رہنے دیتا. آج پوسٹ کیپٹلزم کے نیم بورژوا رجحانات بھی اس خواہش کے ستائے نظر آتے ہیں. اور نٸی مارکسیت کے تخیلاتی سوشلسٹ رجحان بھی نیو کلاسیکل معیشت کیساتھ ہیرے اور پانی کی مثالوں سے اس قانون کے بارے میں اپنی معصومانہ خواہشات کا اظہار مارکسی لبادے میں کرتے ہیں. ٹیکنالوجی کی جدت میں انہیں اپنے خواب پورے ہوتے نظر آتے ہیں. کیونکہ مارکس کا قانون قدر یہ کہتا ہے قدر زائد سرمایہ داروں اور محنت کشوں کے درمیان طبقاتی جنگ کا سب سے اہم مسئلہ ہے. اور ان رجحانات کو طبقاتی جدوجہد کے نام سے ہی موت آنا شروع ہو جاتی ہے.
چونکہ مارکس سرمایہ دارانہ طرز پیداوار میں مشین کے استعمال اور اس کے سماجی اثرات کی نہ صرف وضاحت کر چکے تھے بلکہ سرمایہ دارانہ نظام کیلئے اپنے قوانین (قانون قدر، قانون ارتکاز اور شرح منافع میں گراوٹ کے رجحان کا قانون) بھی دریافت کر چکے تھے. یہی وجہ ہے کہ ٹیکنالوجی کی جدت کے باوجود نہ صرف مارکس کے معاشی نظریات بلکہ سرمایہ دارانہ سماج کا تجزیہ آج اس سے بھی زیادہ درست ہے جتنا 1857 میں تھا. جیسا کہ مارکس نے کہا تھا “قدرتی قوانین کو ختم نہیں کیا جا سکتا تاریخی حالات میں جو چیز بدل سکتی ہے وہ ان قوانین کا اطلاق ہے”. یہی وجہ ہے کہ مارکس کے یہ قوانین اُتنی ہی آب و تاب سے چمک رہے ہیں جتنا ڈارون کے نامیاتی ارتقاء کا قانون.
طوالت کے خوف سے ہم معاشی بنیادوں کے انتہائی اختصاری اظہار کے ساتھ نفس مضمون کے اہم حصے کی طرف بڑھیں گے. تاہم عنوان میں درج سوال کے جواب کا تقاضا ہے کہ ہم اتنا ہی اختصار سرمایہ دارانہ طرزِ پیداوار یعنی منڈی کی معیشت پر بھی قائم رکھیں.
تاریخ کے مادی نقطہء نظر کے مطابق معاشرے کی کسی بھی شکل کا ڈھانچہ طرزِ پیداوار پر تعمیر ہوتا ہے. وہ طریقہء کار جس کے ذریعے لوگ اپنے روزمرہ کی روزی روٹی کیلئے منظم ہوتے ہیں۔ مارکسسٹ اس کو طرزِ پیداوار کہتے ہیں. آئیے سرمایہ دارانہ طرزِ پیداوار پر ذرا مختصر سی نظر ڈالتے ہیں.
سرمایہ دارانہ طرزِ پیداوار میں اشیاء کی پیداوار کا بنیادی مقصد حصول منافع ہوتا ہے. یہی وجہ ہے کہ تمام سرمایہ دار منافع کی اعلی ترین شرح کے متلاشی رہتے ہیں اور حصولِ منافع کی اسی ہوس کے باعث سرمائے کی روانی ایک شعبے سے دوسرے شعبے، ایک صنعت سے دوسری صنعت میں منتقل ہوتی رہتی ہے. سرمایہ داری کی لالچی اور ہوس پرست فطرت سرمایہ داروں سے ہر اس شعبے میں سرمایہ کاری کرواتی ہے جہاں قلت ہو، قیمتیں بلند ہوں اور منافع کمانے کا زیادہ سے زیادہ موقع موجود ہو.
منڈی کا کردار
منافع منڈی میں اجناس کو بیچ کر کمایا جاتا ہے. سرمایہ داری اپنے آپ کو اجناس کی پیداوار کے ایسے عالمگیر نظام کے طور پر پیش کرتی یے جہاں ہر چیز کی پیداوار کا مقصد فروخت ہے. یعنی یہ ایک ایسا نظام ہے جہاں قوت محنت بھی ایک جنس ہے. بادی النظر میں ایک ایسا نظام جہاں ہر چیز خریدی اور بیچی جاتی ہے ابدی سا معلوم ہوتا ہے. لیکن ہمیں خود کو یہ یاد دہانی کروانے کی ضرورت ہے کہ اجناس کی پیداوار معاشی ارتقاء کے دوران انتہائی آخری اور حالیہ ترقی ہے. سینکڑوں ہزاروں سال انسان نے منڈی کے بغیر اپنی زندگی بسر کی.
کارل مارکس نے اپنے تجزیے میں سرمایہ دارانہ نظام کے اس نام نہاد مغالطے کو بے نقاب کیا کہ منڈی میں تبادلے کے ذریعے کوئی قدر پیدا کی جا سکتی ہے. مارکس نے ثابت کیا تھا کہ منڈی میں اجناس کے تبادلے کے نتیجے میں کوئی قدر پیدا نہیں ہوتی بلکہ منڈی میں قدر کی بندر بانٹ ہوتی ہے. اس سوال کیساتھ بحث کرتے ہوئے کہ آیا اجناس کی قیمتوں کا تعین منڈی کے قانونِ طلب و رسد کرتے ہیں یا کوئی اور ملکیت ان کی قیمتوں کا تعین کرتی ہے، مارکس نے وضاحت کی تھی کہ منڈی فیکٹری کی طرح قوت محنت کی تقسیم (عالمگیر تقسیم) کا ایک ذریعہ ہے. منڈی کے تبادلے سے قدر میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا قدر صرف پیداواری عمل کے دوران انسانی محنت سے پیدا ہوتی ہے.
مارکس نے یہ بھی واضح کیا تھا کہ طلب و رسد صرف سرمایہ داری کے قوانین حرکت کو منطقی انجام تک لے جاتے ہیں. طلب و رسد کے قوانین منڈی میں اتار چڑھاؤ کا باعث بنتے ہیں لیکن یہ اتار چڑھاؤ قیمتوں کو ان کی اوسط سطح پر لے آتا ہے. “چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ کسی جنس کی قیمت اس کی لاگت سے طے پاتی ہے. مگر اس طور پر کہ ایک وقت میں قیمت اصل لاگت سے اوپر چلی جاتی ہے تو دوسرے وقت میں وہ لاگت سے گر جاتی ہے. یوں اس اتار چڑھاؤ کی تلافی ہو جاتی ہے اور قیمتوں کی لاگت کا تعین ہو جاتا ہے. اگر ہم کسی ایک صنعتی شئے کو الگ کر کے دیکھیں گے تو یہ اصول صحیح نہیں بیٹھے گا یہ تب ہی کارآمد ہو گا جب کسی مجموعی صنعت کو نظر میں رکھا جائے. اسی طرح یہ اصول کسی ایک صنعت پر صادق نہیں آتا بلکہ صنعتکار طبقے کو مجموعی طور پر شمار کیا جانا چاہیئے.
قیمت کا لاگت سے طے پانا اس بات کے برابر ہے کہ کسی جنس کی تیاری پر قوت محنت کا کتنا حصہ یعنی وقت خرچ ہوا.
کیونکہ لاگت میں مندرجہ ذیل دو چیزیں شامل ہوتی ہیں:-
1- خام مال، مشینوں اور اوزاروں کی گھساٸی یا ٹوٹ پھوٹ کا خرچ – یعنی وہ صنعتی مال جن کی پیداوار پر محنت کا ایک وقت لگتا ہے اور جو محنت کے مقررہ اوقات سے حاصل ہوتے ہیں.
2- براہِ راست انسانی محنت جس کی پیمائش بھی وقت میں ہوتی ہے”. (کارل مارکس سیاسی معاشیات کی تنقید)
کیونکہ سرمایہ دارانہ طرزِ پیداوار پر منڈی کا غلبہ ہے یہی وجہ ہے کہ ہم نے مارکس کو سمجھنے کیلئے منڈی سے آغاز کیا. تاہم سرمایہ دارانہ طرزِ پیداوار کا اصل راز فیکٹری میں پیداواری عمل کے دوران محنت کے استحصال میں پوشیدہ ہے. سرمایہ دارانہ طرزِ پیداوار پر منڈی کے غلبے نے اس راز کو پس پردہ ڈال رکھا ہے. یہی وجہ ہے کہ کارل مارکس نے اپنے سب سے عظیم معاشی کام داس کیپٹل میں اپنے تجزیے کا آغاز “قوت محنت” یا قدر زائد سے کرنے کے بجائے جنس سے کیا.
جنس
ہر وہ شے جو قدر استعمال کی حامل ہو جنس کہلاتی ہے. مارکس سب سے پہلے یہ واضح کرنا چاہتے تھے کہ سرمایہ دارانہ طرزِ پیداوار میں اجناس دوہری ملکیت کی حامل ہوتی ہیں یعنی ان کی ایک ملکیت قدر افادہ (قدر استعمال) ہوتی ہے اور ایک ملکیت قدر تبادلہ. مارکس نے یہ بتایا کہ تبادلے کے دوران اجناس کا موازنہ ایک دوسرے سے کیا جاتا ہے. اس کا مطلب اجناس میں کوئی مشترک قدر ہے جو اُن کو قدرِ تبادلہ فراہم کرتے ہوئے موازنے کے قابل بناتی ہے. مارکس کا ماننا تھا کہ ان کی قیمت کا تعین کرتے ہوئے ان کو قدرِ تبادلہ فراہم کرنے والی ملکیت کو امتیاز حاصل ہونا چاہیے.
مارکس نے مختلف اجناس کی ملکیتوں پر تجربات کے ذریعے اس نچوڑ پر اپنے تجزیے کا اختتام کیا کہ “انسانی محنت ہی وہ ملکیت ہے جو اجناس کی مختلف کردار نگاری کرتے ہوئے انہیں قدرِ تبادلہ فراہم کرتی ہے. اجناس کی پیداوار میں صرف ہونے والی انسانی محنت ہی ان کو قدر فراہم کرتی ہے”. (داس کیپٹل)
“جنس کی قدر کا تعین ماضی کی مجموعی محنت کے وقت اور اس میں شامل زندہ محنت کی بنیاد پر کیا جاتا ہے. محنت کی پیداواریت میں اضافہ من و عن اس بات پر مشتمل ہے کہ زندہ محنت کا حصہ کم سے کم اور ماضی کی محنت میں اضافہ زیادہ سے زیادہ ہو، مگر اس طرح سے جنس میں شامل محنت کی مجموعی مقدار میں کمی آتی ہے”. (گرنڈریس)
قدر کا قانون
قوت محنت کو دریافت کرتے ہوئے مارکس کلاسیکل معاشیات اور سوشلسٹ نقادوں کی قیاس آرائیوں سے آگے بڑھتے ہوئے ٹھیک اس جگہ پر نشانہ لیتے ہیں جو سرمایہ دارانہ نظام کا دل (منافع) ہے. سرمایہ دارانہ نظام کی اہم خاصیت یہ ہے کہ اس میں انسانی اکثریت ذرائع پیداوار کی ملکیت سے محروم ہوتی ہے اور اسے اپنی بقاء کیلئے ہر صورت اپنی واحد ملکیت یعنی اپنی محنت بلکہ قوت محنت ذرائع پیداوار کے مالکان کو فروخت کرنا پڑتی ہے. اسی نسبت سرمایہ دارانہ نظام میں محنت بذات خود جنس ہے یہی وجہ ہے کہ دیگر اجناس کی طرح محنت بھی دوہری ملکیت کی حامل ہوتی ہے. مارکس ان کو کارآمد محنت اور تجریدی محنت کا نام دیتے ہیں. کار آمد محنت سے مراد کسی خاص مقصد کیلئے اس ملکیت کو استعمال کرتے ہوئے انسانی ضروریاتِ زندگی کی تکمیل کیلئے قدر افادہ پیدا کرنا. تجریدی محنت سے مراد جنس کی قدر تبادلہ پیدا کرنے کیلئے انسانی قوت محنت کا استعمال جو اسے فروخت کے قابل بناتی ہے.
یہ مارکس کے قانون کی اہم دریافت تھی یہی وجہ ہے کہ مارکس نے محنت اور ‘قوت محنت’ (قدر زائد کا باپ منافع کا منبع) کے درمیان فرق قائم کیا. صرف تجریدی محنت ہی قدر تبادلہ پیدا کرتی ہے. مارکس کے مطابق “سرمایہ دارانہ طرزِ پیداوار میں محنت کی تمام پیداوار قدرِ تبادلہ پر فروخت ہونے کیلئے جنس بن جاتی ہے لہٰذا ٹھوس محنت کی مختلف قسمیں بھی تجریدی ہیں”.
قوت محنت ہی وہ پوشیدہ نقطہ ہے جو منافع کا اصل منبع ہے اور منافع بنیادی طور پر قدر زائد کا محاصل ہے. قدر زائد وہ چوری شدہ انسانی محنت ہے جو پیداواری عمل کے دوران صنعتکار انسانی محنت کے وقت سے چوری کرتا ہے. قدر زائد سرمایہ دارانہ استحصال کا مخصوص اظہار ہے جس میں فاضل پیداوار قدر زائد کی شکل اختیار کرتی ہے. مارکس نے نشاندہی کی تھی کہ “سرمایہ دارانہ طرزِ پیداوار میں قدر زائد کی پیداوار ایک مطلق قانون ہے”. یہ قانون نہ صرف سرمایہ داروں اور اجرتی مزدوروں کے درمیان معاشی تعلق کا عکاس ہے بلکہ یہ سرمایہ داروں، تاجروں، صنعتکاروں اور بینکاروں کے آپسی معاشی رشتے اور زمین کے مالکان کے ساتھ ان تعلقات کا بھی عکس ہے. یہ وضاحت کافی ہو گی کہ مارکس کا قانونِ قدر کوئی تصور یا مفروضہ نہیں بلکہ ایک قانون ہے. یہی وہ قانون ہے جو نہ صرف سرمایہ دارانہ نظام کا مکمل ڈھانچہ فراہم کرتا ہے بلکہ انتشار و استحصال کے خاتمے کیلئے سرمایہ دارانہ نظام کی بحیثیت طرزِ پیداوار و سماجی تنظیم کے خاتمے کی ناگزیر ضرورت کو بھی اجاگر کرتا ہے.
یہ کوئی نیا تصور نہیں کہ قدر انسانی محنت کی پیداوار ہے 1381 میں کسان انقلاب کا اہم کردار جان بال اپنے خطابات میں اس نظریے کو بیان کرتا تھا. 1652 میں گیراڈ ونسٹینلی نے کہا تھا “دولت مند آدمی سب کچھ محنت کشوں کے ہاتھوں کی محنت کا کھاتے ہیں اور جو کچھ وہ ان کو دیتے ہیں وہ دوسروں کی محنت کا پھل ہوتا ہے ان کا اپنا کچھ نہیں ہوتا”. لندن میں جیکوبن رہنما جان ٹھیلوال کہتے ہیں “ملکیت انسانی محنت کے علاوہ کچھ بھی نہیں. ولیم پیٹی نے درست طور پر کہا تھا “محنت دولت کا باپ اور زمین اسکی ماں ہوتی ہے.
تاہم تمام بورژوا ماہرین معاشیات اور سوشلسٹ نقادوں کے لیے قدر کا تصور بند گلی کی مانند تھا. فریڈرک اینگلز نے کہا تھا “مارکس وہ شخص تھا جس نے اس بند گلی سے نکلنے کا راستہ تلاش کیا تھا”. اور یہ راستہ مارکس کے قانون قدر کی دریافت تھا. کارل مارکس کی دریافت کردہ “قوت محنت” ایک منفرد جنس ہے یقیناً اس جنس کی کوئی قیمت بھی ہو گی! اس قیمت کا تعین کون کرتا ہے؟
اجرت
قوت محنت ایسی جنس ہے جس کی ملکیت انسانی خون اور گوشت کے علاوہ کچھ بھی نہیں. اجناس کا موازانہ جب روپے میں کیا جاتا ہے تو وہ اس کی قیمت بن جاتا ہے بلکل اسی طرح ‘قوت محنت’ کی خریداری کیلئے اس قیمت کا مخصوص نام اجرت ہے.
یہ خود ایک واضح حقیقت ہے کہ وہ اجرت جو مزدور اپنی قوتِ محنت کی فروخت سے حاصل کرتا ہے وہ اس سے انتہائی کم ہوتی ہے جتنی محنت اس نے ذرائع پیداوار کے مالکان کو فروخت کی ہوتی ہے. یعنی اس نے جتنی پیداوار کی اس کے مقابلے میں اجرت کی ادائیگی کم ہوئی.
یہ تصور کر لینا کے زائد پیداوار صرف سرمایہ درانہ نظام سے منسلک ہے درست نہیں ہر اس سماج میں جس میں ایک طبقہ ذرائع پیداوار پر قابض ہوتا ہے دوسرا طبقہ زائد پیداوار کرتا ہے. تاہم قوت محنت ہر عہد میں مال تجارت نہیں تھی. مارکس کہتے ہیں “محنت ہمیشہ اجرتی نہیں رہی۔ مثلاً مفت محنت. غلاموں نے کبھی بھی اپنے آقاؤں کو اتنی قوت محنت نہیں بیچی جتنا کے ایک بیل اپنے مالک کسان کو بیچتا ہے. غلام اپنی قوت محنت کے ساتھ ایک ہی بار اپنے مالک کو بیچ دیا جاتا…. وہ بذات خود ایسی جنس تھی جو ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں منتقل ہوتی رہی اس کی قوت محنت کبھی بھی جنس نہیں رہی… نہ ہی مزاروں نے کبھی جاگیرداروں کو اپنی قوت محنت بیچی…. اس کے برعکس آزاد مزدور اپنی ذات کو ٹکڑوں میں بیچتا ہے”. (محنت اور اجرت)
“قوت محنت کو عمل میں لانا مزدور کی اپنی زندگی کا اظہار ہے. وہ اپنی زندگی کی اس سرگرمی کو دوسروں کے ہاتھوں میں فروخت کر دیتا ہے تاکہ بقاء کے ذرائع کی فکر سے آزاد ہو. وہ کام کرتا ہے تاکہ زندہ رہ سکے، وہ محنت کو اپنی زندگی کا حصہ نہیں سمجھتا بلکہ اپنی زندگی کے ایک حصے کی قربانی شمار کرتا ہے. قوتِ محنت ایسی شے ہے جو اس نے فروخت کر دی یہی وجہ ہے کہ اس کی محنت کی پیداوار اس کا مقصد نہیں ہوتی”. (محنت اور اجرت) یعنی وہ پیداواری عمل کی حاصلات سے مکمل طور پر بیگانہ ہوتا ہے.
اجرتیں کبھی بھی پیداواری عمل میں شرکت پر پیداوار میں مزدور کا حصہ نہیں ہوتیں. اجرتیں پہلے سے موجود مال کا وہ حصہ ہوتی ہیں جن سے سرمایہ دار کسی مخصوص ٹاسک کیلئے قوت محنت یا محنت کی پیداواریت کا ایک حصہ خریدتا ہے. اجرتیں ایک مخصوص جنس کی قیمت ہیں یہی وجہ ہے کہ اجرتوں کی قیمت کا تعین بھی اُسی قانون کے تحت ہوتا ہے جس کے تحت دیگر اجناس کا یعنی کے محنت کے اوقات کار.
طلب و رسد کی طرح سرمایہ دارانہ نظام کی لازمیت یعنی صنعتی ریزرو آرمی اجرتوں میں اتار چڑھاؤ کا سبب رہتی ہیں. تاہم یہ بحث ہمیں نفس مضمون سے دور لے جائے گی اتنا کہنا کافی ہو گا کہ اجرتیں قوت محنت کے استحصال کو دوہرا کر دیتی ہیں. یعنی بلند منافع کی شرح کیلئے فیکٹری میں پیدا ہونے والی قدرِ زائد کی شرح کو بڑھانے کیلئے اجرتوں میں کمی کا رجحان جنم لیتا ہے. مارکس وہ پہلا فرد تھا جس نے کہا تھا کہ “سرمایہ دارانہ نظام میں مزدوروں کا استحصال فقط اس لئے نہیں ہوتا کہ ان کو اجرتیں پوری نہیں ملتیں بلکہ اگر ان کو پوری اجرتیں مل بھی جائیں تو بمشکل اگلے روز کی محنت کیلئے اپنی طاقت کو بحال کرنے کی خاطر ضروری اجناس کو خریدنے کے قابل ہوں گے”.
سرمایہ
سرمایہ کیا ہے؟ وہ روپیہ جس کو جنس میں اس لیے تبدیل کیا جاتا ہے تاکہ اس کو پھر سے روپے میں تبدیل کیا جائے لیکن اس کی مالیت زیادہ ہو. یعنی اگر 3 روپے خرچ کر کے ایک پنسل بنائی جاتی ہے تو اسے 4 روپے کی فروخت کیا جائے گا، منافع کی صورت میں حاصل ہونے والا ایک روپیہ سرمایہ کہلاتا ہے جو انسان کی چوری شدہ محنت ہوتی ہے.
مارکس نے کہا تھا “سرمایہ داری نے قدر زائد نچوڑنے کو ہی انسانیت کا واحد مقصد بنا دیا ہے. روپے کا ایک ایک جزو انسانی لہو میں لتھڑا ہوا ہے. لیکن جب سرمایہ نمودار ہوا تو اس کی ایک ایک مسام سے لہو اور غلاظت ٹپک رہی تھی…”. (گرنڈریس)
انسانی محنت کی نچوڑی ہوئی شکل اور فطرت کا استحصال سرمائے کی بنیاد ہے. سرمایہ دارانہ طرزِ پیداوار میں سرمایہ کاری بھی مختلف نوعیت کی ہوتی ہے. مارکس نے مجموعی سرمائے کو دو زمروں میں تقسیم کیا.
1: مستقل سرمایہ (مشینری، خام مال، انرجی، روشنی اور طاقت کے اخراجات کے برابر)
2: متغیر سرمایہ (سرمائے کے ذریعے قوت محنت خریدنے کے اخراجات.
پیداواری ذرائع میں استعمال ہونی والی سرمایہ کاری مستقل سرمایہ اس لئے ہے کیونکہ یہ محض اپنے اندر مجسم محنت کو منتقل کر سکتا ہے. وہ سابقہ قدر جو ان کی پیداور میں استعمال ہوئی مستقل ہے بڑھ نہیں سکتی یعنی ذرائع پیداوار بذات خود کوئی نئی قدر تخلیق کرنے پر قادر نہیں. نئی قدر کا تقاضا ہے کہ انسان کام پر جائیں مشین چلائیں اور خام مال استعمال کریں.
صرف انسانی محنت ہی نئی قدر تخلیق کر سکتی ہے. اس میں امتیاز کرنے کے لیے مارکس نے اس کو متغیر سرمائے کا نام دیا. یہ متغیر ہے کیونکہ یہ افزائش نو کے قابل ہے اور نئی قدر کا سرچشمہ یہی ہے. (جاری)